آل سعود کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کی ماہیت سے مغربی رائے عامہ کی آگاہی
شام میں حلب کے قریب کئی علاقوں کو داعش دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرانے میں شامی فوج کو حاصل ہونے والی نئی کامیابیوں کے بعد سعودی عرب نے دہشت گردوں کے خلاف مہم کے لئے داعش مخالف نام نہاد اتحاد کے دائرے میں اپنی فوج شام بھیجنے کے لئے آمادگی کا اعلان کیا ہے۔ سعودی عرب کے اس موقف پر سیاسی و تشہیراتی حلقوں میں مختلف قسم کے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے امریکی وزارت جنگ نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عرب کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ سعودی عرب کی آل سعود حکومت کے اس موقف پر یورپ کے بڑے اور بااثر ملکوں کی حکومتوں نے سیاسی سطح پر خاموشی اختیار کی ہے تاہم یورپی ذرائع ابلاغ نے شام میں سعودی عرب کی فوجی موجودگی پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس مسئلے کو تشویشناک قرار دیا ہے۔
جرمنی کے اخبار ویرتشافتز ووخہ نے لکھا ہے کہ بحران شام کی راہ حل، سعودی عرب کی جانب سے اس ملک میں فوج بھیجنا نہیں ہے۔ سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ وہ داعش گروہ کے خلاف مہم کے لئے اپنی برّی فوج بھیجنا چاہتا ہے جبکہ مغرب کو چاہئے کہ اس کے اس اقدام کی حمایت نہ کرے اس لئے کہ یہ اقدام، مزید کشیدگی و بحران کا باعث بنے گا۔
لندن سے شائع ہونے والے اخبار رای الیوم نے شامی فوج کی پیش قدمی پر سعودی عرب کے عجلت پسندانہ ردعمل کے بارے میں لکھا ہے کہ حلب اور صوبے درعا کے علاقے میں شامی فوج کی پیش قدمی و کامیابی اور روسی فضائیہ کی حمایت سے نبل اور الزہرا جیسے شہروں کا تین سالہ محاصرہ ٹوٹنا، سعودی عرب اور ترکی کی گہری تشویش کا باعث بنا ہے جس کی بناء پر وہ اپنی پانچ سالہ شک و تردید سے مکمل چشم پوشی کریں اور شام کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے اپنی برّی فوج کی شمولیت کے چیلنج تک کو قبول کریں۔
اخبار کے اس مضمون نگار نے لکھا ہے کہ اس بات کا یقین ہے کہ ترکی اور سعودی عرب، داعش کے خلاف جنگ کے لئے کبھی اپنی فوجیں نہیں بھیجیں گے بلکہ وہ، مختلف طریقوں سے شام کی حکومت کا تختہ الٹنے کی غرض سے شامی فوج کی پیش قدمی اور اس کے ہاتھوں شام کے اقتصادی مرکز کی حیثیت سے حلب کی آزادی کی روک تھام کے لئے اس قسم کا اقدام عمل میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ شام میں سرگرم مسلح دہشت گرد عناصر کی خود اعتمادی بحال ہو۔
آل سعود اس طرح کے اقدامات سے ادلب و جسر الشغور میں جیش الاسلام اور جیش الفتح جیسے دہشت گرد گروہوں کو تقویت پہنچانے کی خواہاں ہے۔ مشرق وسطی کی سطح پر سعودی عرب کی پالیسیوں پر مغرب کی جانب سے اس سے قبل سیاسی و ذرائع ابلاغ کی سطح پر اس طرح کے شفاف ردعمل کا اظہار کم ہی کیا گیا ہے۔ جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ مغربی رائے عامہ، انتہا پسندی کی ترویج اور اسلامی و غیر اسلامی مذاہب کے درمیان نفرت کا بیج بونے سے متعلق سعودی عرب کی آل سعود حکومت کی ماہیت سے خاصی آگاہ ہوچکی ہے۔ مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں آل سعود حکومت کی سیاسی و فوجی حمایت سے متعلق رویے میں تبدیلی کے لئے مغربی ملکوں کی حکومتوں میں سنجیدہ عزم و ارادہ نہیں پایا جاتا۔
امریکہ کی خارجہ تعلقات کونسل میں امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے رکن سینیٹر کریس مورفی کے کچھ عرصے قبل کے بیان سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ امریکی حکومت، خاص مقصد کے تحت سعودی حکومت کی حمایت کر رہی ہے تاکہ مشرق وسطی کا علاقہ، آل سعود کی انتہا پسندی اور نفرت انگیز پالیسیوں کی بھینٹ چڑھتا رہے اور نتیجے میں پیدا ہونے والے بحرانوں سے اس علاقے میں جعلی صیہونی حکومت کی سلامتی کے تحفظ کے ساتھ مشرق وسطی کے علاقے میں طویل المدت مقاصد کو آگے بڑھایا جاسکے۔
کریس مورفی نے امریکہ کی خارجہ تعلقات کونسل کے اجلاس میں کہا ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس میں نصابی کتابوں کے ذریعے طلباء کی ذہنیت وہابی افکار سے متاثر کی جا رہی ہے اور وہابی عقائد پر مشتمل کتابوں کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ مورفی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان طلباء سے کہا جاتا ہے کہ صلیبی جنگیں ہرگز ختم ہونے والی نہیں ہیں اور اسکول، امدادی ادارے اور سرکاری تنظیمیں، اسلام پر حملے کے لئے مغرب کے نئے حربے ہیں اور دینی فریضہ یہ ہے کہ کفار سے جنگ کی جائے۔
اس بات کی تعلیم، دنیا کے مختلف ملکوں منجملہ پاکستان سے لے کر کوسوو، نائیجیریا اور انڈونیشیاء تک دی جا رہی ہے۔ کریس مورفی نے یہ بھی کہا کہ وہابیت، اسلام میں مختلف قسم کی تحریف اور بدعتوں کے قیام کا باعث ہے۔ وہابی تکفیری مدارس میں دی جانے والی تعلیمات، دوسروں سے نفرت کئے جانے پر مشتمل ہیں اور ان تعلیمات میں وہابی افکار سے متاثرہ افراد کے علاوہ، سب کو کافر قرار دیا جاتا ہے جن میں یہودی، عیسائی، یہاں تک کہ شیعہ مسلمان، صوفی اور وہ سنی بھی شامل ہیں جو وہابی تکفیری مکتب کی پیروی نہیں کرتے۔