Feb ۱۱, ۲۰۱۶ ۱۵:۰۳ Asia/Tehran
  • سعودی عرب کی ہمہ گیر ناکامیاں

سعودی عرب اپنی ہمہ گیر ناکامیوں کو چھپانے کے لئے شام میں فوجی بھیجنے کے بڑے بڑے دعوے کررہا ہے

شام کے لئے فوج بھیجنے کے سعودی عرب کے متنازعہ منصوبے پر ہر طرف سے بڑھتی ہوئی تنقیدوں کے پیش نظر سعودی عرب نے اپنی یہ تجویز واپس لے لی ہے۔ ریاض نے اعلان کیا ہےکہ وہ شام کے خلاف فوج بھینجے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بدھ کے روز رباط میں اپنے مراکشی ہم منصب صلاح الدین مزوار سے ملاقات میں کہا کہ شام میں فوج بھیجنے اور زمینی کارروائیوں کا نظریہ امریکہ نے پیش کیا تھا اور سعودی عرب نے صرف اسکی حمایت کی ہے۔ انہوں نے عالمی سطح پر اس تجویز پر بڑھتی ہوئی تنقیدوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ شام میں دہشتگردوں کے خلاف امریکہ کی سربراہی میں بین الاقوامی اتحاد کے ہمراہ بری فوج بھیجنے کے سلسلے میں تجویزیں پیش کی گئی ہیں اور سعودی عرب ایسے اتحادکی تشکیل کی صورت میں اسکی حمایت کرے گا۔

شام میں بری فوج بھیجنے کے موقف سے سعودی عرب کی پسپائی کے اعلان کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ امارات شام کے بحران کے سیاسی راہ حل کی حمایت کرتا ہے اور شام کے لئے فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ یاد رہے متحدہ عرب امارات نے اس سے قبل شام کے لئے فوج بھیجنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔

گذشتہ جمعرات کو سعودی عرب کی فوج کے ترجمان احمد العسیری نے متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو سعودی عرب شام میں بری فوج بھیجے گا۔ یہ بیان ایسے عالم میں آیا ہے کہ شام کے امن مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں۔ ان مذاکرات میں شامی حکومت کے نمائندے اور مخالفین شریک تھے یہ مذاکرات سعودی عرب کے دباؤ کی وجہ سے ناکام ہوئے ہیں۔

شام کے وزیر خارجہ علی معلم نے سعودی عرب کے اس موقف اور امارات کی جانب سے اس کی حمایت کے جواب میں ایک بیان میں کہا ہے کہ جو بھی حکومت شام میں فوجی مداخلت کرے گی اس کے فوجی تابوتوں میں واپس بھیجے جائیں گے۔ولید معلم نے کہا کہ ایسے عالم میں جبکہ خلیج فارس کے بعض ممالک خود کو یمن کے دلدل سے نہیں نکال سکے ہیں وہ شام میں فوج بھیجنے کے دعوے کرکے شکست خوردہ دہشتگرد گروہوں کے حوصلوں کو بلند کرنا چاہتے ہیں۔

فوجی امور کے مبصرین کا کہنا ہے کہ علاقے میں سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی مہم جوئی کے نتیجے میں آل سعود متعدد مشکلات بالخصوص سکیورٹی کے بحران اور عالمی سطح کے مسائل میں گرفتار ہوچکی ہے اسی بنا پر غیر ذمہ دارانہ اور عجلت پسندانہ طریقہ ہائے کار اپنا کر کسی بھی طرح سے خود کو بحران سے نکالنا چاہتی ہے۔

اس نظریے کی بنیاد پر سعودی بادشاہت نے گذشتہ ایک برس میں علاقے بالخصوص شام، یمن اور عراق میں اپنے ہم خیال دہشتگرد گروہوں پر بے پناہ سرمایہ کاری کی ہے لیکن اس سرمایہ کاری سے اسے کسی طرح کا فائدہ نہیں پہنچا ہے بلکہ عالمی سطح پر ریاض کی پوزیشن کے کمزور ہونےکا سبب بنی ہے۔ شام اور یمن میں سعودی عرب کی فوجی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے وہ اپنی ہمہ گیر ناکامیوں کی وجہ سے ہی شام میں اپنے فوجی بھیجنے کی بات کررہا ہے۔

ٹیگس