رہبر انقلاب اسلامی سے گھانا کے صدر کی ملاقات
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اتوار کی شام گھانا کے صدر جان درامانی ماہاما سے ملاقات میں سامراجی طاقتوں کے مفادات کو دنیا کے مختلف حصوں میں طرح طرح کی جنگوں اور بدامنی کا ذمہ دار قرار دیا ہے-
رہبرانقلاب اسلامی نے علاقے اور افریقہ میں دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے گروہوں کی جانب اشارہ کیا اور یہ سوال اٹھایا کہ کس طرح جدید ترین ہتھیار اور پیسے دہشت گردوں تک پہنچ رہے ہیں-
آپ نے اس مسئلے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ دہشت گرد گروہ جاسوس تنظیموں کے آلہ کار ہیں اور تمام مسائل کی جڑ سامراجی طاقتیں ہیں جن میں امریکہ سب سے آگے ہے اور صیہونی حکومت بھی شر کا مظہر ہے-
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بہت سے ممالک کو دہشت گردی نامی مشترکہ خطرے کا سامنا ہے- اس خطرے نے ثابت کر دیا ہے کہ دہشت گردی کسی طرح کی سرحد کی قائل نہیں ہے اور ایشیا سے لے کر افریقہ تک اور یورپ کے قلب میں حتی امریکی معاشرے میں بھی موجود ہے لیکن دہشت گردی اور انتہاپسندی کی مختلف وجوہات ہیں- ان میں سب سے اہم وجہ ، دہشت گردی کے سلسلے میں مغرب کا دہرا رویہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا ہے-
جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نےگھانا کے صدر سے ملاقات میں فرمایا ہے کہ اس مسئلے کا راہ حل اسے جنم دینے والے تمام عوامل کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنا ہے- لیکن اس مشترکہ مقصد تک پہنچنے کے مواقع تلاش کرنا چاہئے تاکہ سبھی مشترکہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے تعاون کریں- ممالک کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں ایران کے نقطہ نگاہ کی بنیاد بھی یہی ہے-
گھانا سمیت افریقی ممالک اور ایران کے تعلقات بھی اسی خصوصیت کے حامل ہیں- اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے گھانا کے صدر کے مذاکرات میں زیر بحث آنے والے موضوعات ، اسی سطح کے تعلقات کی تصدیق کرتے ہیں- اسلامی جمہوریہ ایران کا خیال ہے کہ اس وقت عالمی بحران ایسے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں کہ اگر یہ تعاون پیدا نہ ہوا تو سب کو نقصان ہوگا اور اس میں کوئی کامیاب نہیں ہوگا-
درحقیقت امن و سیکورٹی ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کا تعلق صرف ایشیااور افریقہ کی سرحدوں تک نہیں ہے-
اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ بھی صرف تعاون ہے-
اس تعاون کا دائرہ ایشیا سے یورپ تک پھیلایا جا سکتا ہے- سامراج کے خلاف جد و جہد میں گھانا گرانقدر تجربات کا حامل اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ کے لئۓ پرعزم ہے-
اس کے باوجود یہ کہنا چاہئے کہ مشترکہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے منفی روش میں تبدیلی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوےدار بعض ممالک کی دہری پالیسیوں کا سلسلہ بند کئے جانے کی ضرورت ہے-
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب سمیت علاقے کے بعض ممالک دہشت گردی پھیلنے کے باعث ہیں- اور شام کی قانونی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں- یہ پالیسی صرف امریکہ کے مداخلت پسندانہ مقاصد کو آگے بڑھانے اور علاقے کے بحران سے اسرائیلی حکومت کے ناجائز فائدہ اٹھانے میں مددگار ہوگی -