شام کے امن مذاکرات مایوسی اور ناامیدی کے پیچ و خم کے درمیان
شام کے امور میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے اسٹیفن ڈی میسٹورا کے شام کے امن مذاکرات کے انعقاد کے بارے میں مایوس کن بیان نے ان مذاکرات کے مستقبل کو پہلے سے زیادہ تاریک کر دیا ہے۔
اسٹیفن ڈی میسٹورا نے سویڈن کے اخبار سونسکا داگبلات (Svenska Dagbladet) سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شام کے امن مذاکرات ان کی امید کے برخلاف پچیس فروری کو جنیوا میں منعقد نہیں ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ واقعی وہ اس بات پر قادر نہیں ہیں کہ شام کے متحارب دھڑوں کو مقررہ تاریخ پر مذاکرات کی میز پر لا سکیں لیکن وہ اس کام کو جلد از جلد انجام دینا چاہتے ہیں۔
اسٹیفن ڈی میسٹورا کے بقول بحران شام کے حل کے لیے مذاکرات برائے مذاکرات نہیں بلکہ حقیقی مذاکرات کی ضرورت ہے۔
شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے کہا کہ اس وقت جنیوا میں امن مذاکرات کے انعقاد کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ تین فروری کو ہونے والا گزشتہ اجلاس بھی سعودی عرب اور ترکی کی مداخلت کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوا تھا۔
اگرچہ جرمنی کے شہر میونخ میں بحران شام کے حل میں مدد دینے کے لیے بین الاقوامی اجلاس کے انعقاد اور ایک ہفتے کے دوران شام میں جنگ بندی کے قیام کے لیے اتفاق رائے سے امن مذاکرات کے تاریک افق میں امید کی کرن پیدا ہوئی تھی لیکن آج ایک بار پھر مایوسی کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔
وہ ممالک کہ جو شام کی حمایت کے بین الاقوامی گروپ کے مذاکرات کی میز پر موجود ہیں لیکن عمل میں وہ غلط فوجی رویہ اپنائے ہوئے ہیں، شام کے پانچ سالہ بحران کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
میونخ سمجھوتے کے موقع پر ترکی نے دہشت گردوں کے محاذ کو مضبوط کرنے کے لیے شام کے شمال میں موجودگی کے لیے سینکڑوں مسلح افراد پر اپنی سرحدیں کھول دیں۔ ترکی اس کے بعد ایک ہفتے سے شام کی کرد فورس کے ٹھکانوں پر گولہ باری کر رہا ہے۔
ترکی کے ان اقدامات کے ساتھ ہی ساتھ سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے جرمن جریدے اشپیگل سے بات چیت میں کہا کہ ان کا ملک شام کے نام نہاد اعتدال پسند باغیوں کو راکٹوں سے مسلح کرنا چاہتا ہے۔
سعودی عرب اور ترکی کا یہ اقدام روس اور شامی فوج کے اقدامات کے بالکل خلاف ہے کہ جو شام کے شمال میں مسلح گروہوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
سعودی عرب اور ترکی یہ دعوی کرتے ہیں کہ روس کے جنگی طیاروں کو داعش سے کوئی سروکار نہیں ہے اور وہ اعتدال پسند باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
ترکی، سعودی عرب اور شامی صدر بشار اسد کے مخالف ملکوں کی نظر میں دہشت گردوں کے خلاف شام اور روس کی سنجیدہ فوجی کارروائی دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے لیکن ریاض اور انقرہ کی جانب سے شام کے نام نہاد اعتدال پسند باغیوں کی مالی اور فوجی مدد کو داعش کے خلاف جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔
دہشت گردی کے بارے میں مختلف نظریات نے بحران شام کے سیاسی حل کا عمل سست کر دیا ہے۔
بشار اسد کا مخالف محاذ اور نام نہاد اعتدال پسند باغیوں کے حامی بدستور شام کے امن مذاکرات کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کو بھی ایک حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرنے والے شامی کردوں کے ٹھکانوں پر گولہ باری بحران شام کے اہم فریقوں کے مواقف میں اختلاف کی نشاندہی کرتی ہے۔
جب تک ترکی، سعودی عرب، قطر اور بشار اسد کے دیگر سخت مخالف ممالک دہشت گردی کو ایک حربے اور ہتھکنڈے کے طور پر دیکھیں گے اور بشار اسد کو ہٹانے کی کوشش کرتے رہیں گے تب تک جنیوا میں شام کے امن مذاکرات سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔