Feb ۲۰, ۲۰۱۶ ۱۸:۲۲ Asia/Tehran
  • افغانستان اور پاکستان کا معاہدہ

پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں نے کشیدگی ختم کرنے اور ہمہ گیر تعاون کو فروغ دینے کی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے اتفاق کیا ہے کہ وہ واہگہ اور شیر خان بندر کی سرحدوں کو ہندوستان اور تاجیکستان کے ساتھ تجارت اور اشیا کی ٹرانزٹ کے لیے استعمال کریں گے۔

پاکستان کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان کے ٹرکوں کو طورخم اور چمن کی سرحدوں سے تجارتی سامان ہندوستان لے جانے کی ممکنہ طور پر اجازت دے دے گی۔ افغانستان کی حکومت نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کو اجازت دے گی کہ وہ افغانستان کے راستے تاجیکستان کی سرحد پر شیر خان بندر کو زمینی تجارت کے لیے استعمال کرے۔

گزشتہ سال پاکستان، افغانستان اور تاجیکستان کے درمیان زمینی تجارت کا ابتدائی سمجھوتہ ہوا تھا اور اس پر عمل درآمد کے لیے تینوں ملکوں کے حکام کے دستخط کا انتظار ہے۔ اس بنا پر سیاسی مبصرین کے خیال میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان اپنے تجارتی حلیفوں کے ساتھ اشیا کی ٹرانزٹ کے لیے ایک دوسرے کی سرزمین استعمال کرنے کے لیے اتفاق رائے، علاقائی تجارت اور اقتصادی تعاون کے عمل میں تیزی لا سکتا ہے۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ کابل حکومت نے اس سے قبل پاکستان کے ساتھ اشیا کی ٹرانزٹ تعاون کے سمجھوتے پر دستخط کو ہندوستان کی موجودگی سے مشروط کیا تھا کہ جس کی پاکستان نے مخالفت کی تھی۔

اس بنا پر پاکستان کی جانب سے افغانستان کو اپنی اشیا ہندوستان کے بازاروں تک لے جانے کی ممکنہ طور پر اجازت دینا ایک اہم اور قابل توجہ بات ہے کہ جو علاقے کی اقتصادی اور ٹرانزٹ صورت حال کو بدل سکتا ہے۔

سیاسی مبصرین کے خیال میں موجودہ دنیا میں اقتصادی، تجارتی اور ٹرانزٹ تعاون ہمہ گیر تعاون کو فروغ دینے اور قیام امن کے لیے اہم اور موثر راستوں میں سے ہے، کیونکہ اقتصادی اور تجارتی تعاون اپنے تمام پہلوؤں میں دونوں ملکوں کے مفادات کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے اور اس سلسلے میں متعلقہ ممالک اقتصادی اور تجارتی سہولیات اور اشیا کے لین دین سے فائدہ اٹھانے کے لیے پہلے سے زیادہ علاقے میں قیام امن کے سلسلے میں مدد کرتے ہیں۔ اس بنا پر سیاسی مبصرین کے خیال میں اگر تاجیکستان اور اسی طرح ہندوستان کے ساتھ ٹرانزٹ کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاہدے پر عملدرآمد ہو جائے تو یہ بلاشبہ دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک مناسب نمونہ عمل بن سکتا ہے۔ ہندوستان، پاکستان اور افغانستان تاپی گیس پائپ لائن پراجیکٹ میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔

سیاسی مبصرین کے خیال میں کابل، نئی دہلی اور اسلام آباد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جامع علاقائی تعاون کے بغیر مشکلات کو حل کرنا اور درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

ہندوستان اور پاکستان دو روایتی حریف ہیں کہ جو ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح ہیں اور تقریبا سات عشروں سے ان کے اختلافات نے ان کے تعلقات پر سایہ ڈال رکھا ہے۔ جبکہ دوسری جانب افغانستان کے بھی پاکستان کے ساتھ اہم سیکورٹی مسائل ہیں خصوصا مشترکہ سرحدی سیکورٹی اور طالبان کا مقابلہ کرنے کے بارے میں سنگین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور تاجیکستان کے درمیان ٹرانزٹ تعاون وسطی ایشیا اور قفقاز کے ساتھ جنوبی ایشیا کے رابطے کو مضبوط بنا سکتا ہے اور یہ چیز ہندوستان کی مناسب اقتصادی ترقی اور وسطی ایشیا اور قفقاز کی منڈیوں تک ہندوستان کی رسائی کے پیش نظر نئی دہلی کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے۔

دریں اثنا پاکستان بھی تاجیکستان کے راستے اس علاقے کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرے گا کہ جو پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کے اقتصادی ترقی کی بحالی کے پروگراموں کے تناظر میں اہم اور قابل توجہ ہے۔

بہرحال اقتصادی اور ٹرانزٹ تعاون سیکورٹی اور سرحدی تعاون کا راستہ ہموار کرتا ہے کیونکہ سیکورٹی تعاون کے سائے میں ہی یہ تعاون پہلے سے زیادہ فروغ پا سکتا ہے۔ اس بنا پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ مواصلاتی راستوں کے میدان میں تعاون کے لیے افغانستان اور پاکستان کا سمجھوتہ، دیگر شعبوں خصوصا افغانستان میں قیام امن کے لیے ان کے تعاون کی نوید بن سکتا ہے اور بلاشبہ اسلام آباد کو بھی اس کا براہ راست فائدہ ہو گا۔

ٹیگس