Mar ۰۹, ۲۰۱۶ ۱۵:۱۷ Asia/Tehran
  • سعودی عرب میں انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں پر ردعمل

سعودی عرب میں انسانی حقوق کی ہونے والی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے تنقیدوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی اکتّیسویں نشست میں اعلان کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اعتبار سے سعودی عرب، حالیہ چند ماہ کے دوران نئے مقام پر پہنچ گیا ہے اور دو ہزار سولہ کے آغاز سے اب تک سعودی عرب میں اسّی حکومت مخالفین کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ جنیوا میں انسانی حقوق کی تنظیم کی نمایندہ جولیا لانگز نے اس بارے میں کہا ہے کہ سعودی عرب میں، جو کوئی بھی اپنے عقیدے اور نظریے کا اظہار کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف مہم کا قانون، اس ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی توجیہ پیش کرنے کے ایک حربے میں تبدیل ہوگیا ہے۔

جمہوری حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کے سیکریٹری جنرل جان ورمن نے بھی کہا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مسئلہ صرف سعودی عرب تک محدود نہیں ہے بلکہ آل سعود کی فرقہ وارانہ پالسیوں کا دائرہ پڑوسی ملکوں تک پھیل جانے کا بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ مختلف رپورٹوں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ آل سعود کے ہاتھوں انسانی حقوق کی ہونے والی خلاف ورزیاں صرف سعودی عرب تک محدود نہیں ہیں اور اس حکومت کی جانب سے بحرینی عوام کے خلاف آل خلیفہ حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کی حمایت اور اسی طرح یمنی عوام کے خلاف جنگ، نیز شام اور عراق کے عوام کے خلاف جاری سازشوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ علاقے کے عوام بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سلسلے میں آل سعود حکومت کی پالیسیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔

سعودی عرب میں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں کے بارے میں یہ رپورٹیں، ایسی حالت میں سامنے آئی ہیں کہ یہ ملک، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا ایک رکن بھی ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں سعودی عرب کی رکنیت، اقوام متحدہ کے اس ادارے میں انسانی حقوق کے معیار و مفاہیم میں فرق و تحریف، نیز سب سے بڑھکر بین الاقوامی انسانی حقوق کے مسئلے میں بےتحاشا سیاست آجانے کو نمایاں کرتی ہے۔ صحافتی حلقوں منجملہ اخبار الشرق الاوسط نے ابھی حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمیشن میں سعودی عرب کے نمائندے فیصل بن حسن طراد نے اپنے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی پردہ پوشی کی غرض سے اس کمیشن کو دس لاکھ ڈالر دیئے ہیں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمیشن نے سعودی عرب کے اس اقدام کا خیر مقدم بھی کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اس ادارے کے لئے سعودی شاہ کی جانب سے اس قسم کی مالی مدد اور انسانی حقوق کے ہائی کمیشن کی جانب سے، اس کا خیر مقدم، ایسی حالت میں کیا گیا ہے کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مسئلہ، بین الاقوامی اداروں میں غور طلب مسئلہ بنا ہوا ہے اور کجھ عرصے قبل ایمنسٹی انٹر نیشنل نے بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں اس بات پر تاکید کی ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران سعودی عرب میں گرفتاریوں اور سزائے موت پر عمل کے اقدامات میں کافی تیزی آنے کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

سعودی عرب میں آل سعود حکومت کے بے تحاشا جارحانہ اقدامات نے عملی طور پر اس ملک کو عالمی سطح پر عام شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ایک بڑے ملک میں تبدیل کر دیا ہے۔ سعودی عرب کے حکومت مخالفین نے اعلان کیا ہے کہ آل سعود کے ان اقدامات کے نتیجے میں خفیہ جیلوں میں تیس ہزار سے زائد حکومت مخالفین قید کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور سعودی عرب، اس وقت عام شہریوں کے جیل خانے میں تبدیل ہو گیا ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس ملک میں انتخابات، مختلف سیاسی پارٹیوں کی موجودگی اور آزادی صحافت جیسی عوامی حاکمیت کی کوئی علامت تک نہیں پائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب، اقوام متحدہ کا ایک رکن ملک ہے جس پر بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی کرنا ضروری ہے تاہم اس ملک کی آل سعود حکومت نے اب تک خاص طور سے انسانی حقوق کے کسی بھی بین الاقوامی معاہدے پر عمل نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے سرگرم عمل کارکن، سعودی عرب کو انسانی حقوق کے قبرستان سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ، اس ملک میں انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری کے موثر اقدام کے خواہاں ہیں۔

ٹیگس