اگر مجھے صدارتی امیدوار نہ بنایا تو۔۔۔۔۔۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی
ریپبلکن پارٹی کے ممکنہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے دھکی دی ہے کہ اگر انھیں پارٹی کے رہنماؤں نے صدارتی امیدوار نامزد نہ کیا تو ملک میں احتجاج اور شورش کے امکانات موجود ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر انھیں امیدوار نہ بنایا گیا تو امریکہ کو احتجاج اور فساد کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ میں لاکھوں افراد کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ میں انٹرا پارٹی الیکشن میں ریاستوں کے اندر اتنے ووٹ حاصل کر لوں گا کہ صدارتی امیدوار بن سکوں۔ اس متنازعہ سرمایہ دار نے سی این این سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر انھوں نے ریاستوں میں کافی حد تک ووٹ لے لیے اور انھیں صدارتی امیدوار نامزد نہ کیا گیا تو امریکہ میں احتجاج اور شورش برپا ہو گی کیونکہ وہ لاکھوں لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں پرائمری انتخابات جاری رہنے اور بہت سی ریاستوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے حریف امیدواروں سے واضح سبقت حاصل کرنے سے ان کے صدارتی امیدوار بننے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتہا پسندانہ نظریات کو دیکھتے ہوئے ریپبلکن پارٹی کے رہنماؤں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ جن کا یہ خیال ہے کہ ٹرمپ جیسے شخص کے برسراقتدار آنے سے نہ صرف امریکہ کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا بلکہ ریپبلکن پارٹی کی ساکھ بھی متاثر ہو گی۔
اس طرح اس کے باوجود کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے دیگر پارٹی حریفوں پر نمایاں برتری حاصل ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف پارٹی کے اندر بغاوت اور انھیں صدارتی امیدوار نہ بنانے کا امکان پیش کیا جا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل دھمکی دی تھی کہ اگر انھیں پارٹی نے صدارتی امیدوار نہ بنایا تو وہ آزاد حیثیت سے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں شرکت کریں گے۔ بہرحال یہ پہلی بار ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ریپبلکن پارٹی کو کھلم کھلا دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ اگر انھیں ریپبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار نہ بنایا گیا تو ان کے دسیوں لاکھ حامی سڑکوں پر نکل آئیں گے اور امریکہ کو سماجی بحران اور شورش سے دوچار کر دیں گے۔
اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے پرائمری انتخابات کو اس وقت ایسے نئے مسائل کا سامنا ہے کہ جو گزشتہ انتخابات میں پیش نہیں آئے تھے۔ ان میں سے ایک مسئلہ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی جلسوں میں ان کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان ہونے والی جھڑپیں ہیں۔ کہ جو امریکہ کے پرائمری انتخابات کی ایک اہم ترین بحث میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدواروں پر انتخابی جلسوں میں اپنی تقریروں میں خلل ڈالنے کے لیے مخالفین کو بھیجنے کا الزام لگانے کی کوشش کی ہے تاکہ اس طرح امریکی عوام کو قائل کر سکیں کہ انھیں دوسرے صدارتی امیدواروں خاص طور پر ہلیری کلنٹن پر بہت زیادہ برتری حاصل ہے اور امریکی عوام انھیں ہی ووٹ دیں۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ امریکہ کے اس ارب پتی ممکنہ صدارتی امیدوار نے امریکہ میں مسلمانوں اور میکسکو کے مہاجرین پر بھی اپنے لفظی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ درحقیقت ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک موقع پرست انتخابی امیدوار قرار دیا جا سکتا ہے کہ جو امریکی عوام کی تشویش خاص طور پر مہاجرت اور دہشت گردانہ دھمکیوں جیسے مسائل کے پیش نظر ان امریکیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے چکر میں ہے کہ جو موجودہ حالات سے خوفزدہ ہیں اور اقتصادی اور سماجی حالات کو بہتر بنانے کے لیے ایک طاقتور اور بااثر صدر چاہتے ہیں۔