Apr ۰۳, ۲۰۱۶ ۱۶:۱۰ Asia/Tehran
  • ایران: میزائلی توانائی پر مذاکرات نہیں

اسلامی جمہوریہ ایران کی میزائیلی توانائی ملک کی سکیورٹی اور دفاع کا مسئلہ ہے اور اس پر کسی بھی قیمت پر مذاکرات نہیں کئے جاسکتے۔

ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے نیشنل ٹی وی کے چینل ٹو پر گفتگو میں اس موضوع پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے جامع مشترکہ ایکشن پلان پر عمل درآمد سے پہلے عماد نامی میزائل کا تجربہ کیا تھا جس کے بعد امریکیوں اور یورپیوں نے صراحتا کہا تھا کہ اس تجربے سے جامع مشترکہ ایکشن پلان کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے۔

امریکہ کے اقدامات اور بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جامع مشترکہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کے بعد ایران کی دفاعی توانائیوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کا نیا سناریو شروع کردیا گیا ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ پیش کرکے ایران کو نئے خطروں سے دوچار کرنے اور نئی پابندیاں لگانے کے درپئے ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی ایٹمی مذاکرات کار ٹیم کے سینئر رکن نے کہا کہ امریکیوں نے ایران کے میزائلی تجربات کے سلسلے میں دو اجلاس منعقد کئے ہیں جو بغیر کسی نتیجے تک پہنچے اور بغیر کوئی بیان جاری کئے ختم ہوگئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تقریبا دو ہفتے قبل اور گذشتہ جمعے کو امریکہ کی درخواست پر ایران کے میزائلی تجربوں کا جائزہ لینے کے لئے اجلاس بلائے تھے۔ امریکہ اور اسکے یورپی اتحادیوں نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کے نام خط بھیج کر ایران کے بیلسیٹیک میزائیلوں کے تجربے کوسلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے خلاف قراردیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ ایران کے حالیہ بیلسٹیک میزائل تجربوں میں وہ میزائل بھی شامل ہیں جو ایٹمی وارہیڈس لے جاسکتے ہیں۔ عرقچی نے کہا کہ اقوام متحدہ سے مایوس ہونے کے بعد امریکہ کی وزارت خزانہ نے حال ہی میں ایران اور دیگر ملکوں کی بعض کمپنیوں کو پابندیوں کی نام نہاد بلیک لسٹ میں شامل کرلیا۔

امریکہ کے یہ اقدامات ایسے عالم میں جاری ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے خطروں کو پیش نظر رکھ کر دفاعی ترجیحات اور ضرورتوں نیز دفاعی اسٹراٹیجی کو انسدادی اصولوں پر تیار کیا ہے۔یہ اسٹراٹیجی کسی بھی عالمی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتی بلکہ علاقے کی سیکورٹی اوراستحکام کے لئے مفید ہے اور علاقے میں ہر جارح کی ممکنہ مہم جوئی کی روک تھام کرسکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جامع مشترکہ ایکشن پلان کے بعد ایک قرارداد پاس کرکے کہا تھا کہ ایران قانونی اور روایتی فوجی سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے۔ جو بات مسلم ہے یہ ہے کہ امریکہ کے اقدامات دفاعی امور میں عالمی قوانین اور کنونشنوں کے خلاف ہیں۔ اس کے علاوہ ایران نے اپنے ایٹمی مسئلے میں بھی اعلی ترین سطح پر بارہا یہ اعلان کیا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار کی ضرورت نہیں ہے اور وہ خود کو مکمل طرح سے ا ین پی ٹی معاہدے کا پابند سمجھتا ہے، اس اساس پر ایران کے بیلسٹیک میزائل ایٹمی وار ہیڈ لے جانے کےلئے ڈیزائین نہیں کئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جامع مشترکہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کے بعد امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے ہاتھوں سے ایرانو فوبیا کے بعض بہانے نکل گئے ہیں اس وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی ایران پر عائد پابندیاں باقی رکھنے کے لئے نئے بہانوں کی تلاش میں ہیں کیونکہ یہ سوچتے ہیں کہ ایران کو پابندیوں کے ہتھکنڈے سے الگ تھلگ رکھا جاسکتا ہےجبکہ اس سے قبل ان اقدامات کا بے نتیجہ ہونا ثابت ہوچکا ہے۔

ٹیگس