ایرانوفوبیا پر مبنی امریکی پالیسی کا تسلسل
ایرانوفوبیا کے مقصد سے ایران کے خلاف کئے جانے والے امریکہ کے وسیع پروپیگنڈے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے موضوع پر اتفاق کے باوجود ایران کے خلاف امریکہ کی دشمنی مسلسل جاری ہے۔
امریکی وزیر جنگ ایشٹن کارٹر نے منگل کے دن انٹرنیشنل اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز سینٹر میں فوج کی تشکیل نو سے متعلق واشنگٹن کے منصوبے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو اسٹریٹیجک خطرات کا سامنا ہے۔ انہوں نے ایران کو بھی ان خطرات میں سے قرار دیا۔
امریکہ کے نائب وزیر خارجہ نے بھی وزیر جنگ کے زاویۂ نگاہ کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور ایران کے میزائل تجربات پر تشویش کا اظہار کیا۔
تھامس شینن (Thomas Shannon) نے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ ایران کے ساتھ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں کامیاب مذاکرات کے ذریعے اس بات کا موقع میسر آگیا ہےکہ ہم اور ہمارے اتحادی ایٹمی ہتھیاروں تک ایران کی عدم رسائی کے بارے میں یقین حاصل کرنے کا مشترکہ ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے اس عہدیدار نے مزید کہاکہ صدرباراک اوباما ایران کے خلاف پابندیوں سے متعلق قانون میں توسیع کرنے پر آمادہ ہیں بشرطیکہ یہ اقدام اس ملک کے ساتھ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کے ساتھ ٹکراتا نہ ہو۔ واضح رہےکہ اس قانون کی مدت رواں سال کے اختتام تک ختم ہونے والی ہے۔
ان بیانات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ایران اور ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکہ کا زاویۂ نگاہ ایران کو ایک خطرہ قرار دے کر اس پر قابو پانے کی پالیسی کی بنیاد پر استوار ہے۔
اس خیال کی وجہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے سے متعلق امریکہ کا تجزیہ ہے۔ امریکہ کے سفارتکاروں کا خیال ہے کہ ایٹمی معاہدہ امریکہ کے لئے ایک کامیابی ہے اور یہ معاہدہ امریکہ کے لئے ایک ایسی اسٹریٹیجی میں تبدیل ہو چکا ہے جس کے ذریعے ایران کو دوسرے میدانوں میں بھی قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ لیکن امریکی کانگریس اور ری پبلیکن پارٹی میں اس خیال کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کا امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے اور ایران کے خلاف پابندیوں اور دباؤ کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ البتہ ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام میدنوں میں ایران پر دباؤ ڈالا جانا چاہئے۔ ایران کے میزائلوں کے بہانے ایران مخالف پروپیگنڈا، ایران کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت اور یمن سمیت خطے کے ممالک میں ایران کی مداخلت جیسے بے بنیاد الزامات اسی مقصد کے تحت لگائے جاتے ہیں۔ اس پالیسی سے امریکہ کو اپنے ایران مخالف اور مخاصمانہ اقدامات کو جائز ظاہر کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ امریک کے اس زاویۂ نگاہ کا ایک واضح مصداق وائٹ ہاؤس کے ترجمان جاش ارنسٹ کے کل کے بیانات ہیں۔ جاش ارنسٹ نے دعوی کیا تھا کہ ایران کی سرگرمیوں کا مقصد خطے کے امن اور سلامتی کو خطرے میں ڈالنا ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکہ، فرانس اور چند یورپی ممالک نے دعوی کیا کہ انہوں نے یمن جانے والی چند ایسی کشتیوں کو بین الاقوامی پانیوں میں روک لیا تھا جن پر ہتھیار لادے ہوئے تھے۔ واشنگٹن نے ایران کے ساتھ ان کشتیوں کے تعلق کا دعوی کیا ہے۔ ایران اور یمن کے ساتھ ان کشتیوں کے تعلق کا دعوی ایسی حالت میں کیا گیا ہے کہ جب ان کشتیوں کو ایسے علاقے میں روکا گیا جہاں بحری قزاق اور اسلحے اور منشیات کے بین الاقوامی اسمگلر آتے جاتے ہیں۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ نے منگل کے دن اپنی رپورٹ میں ان کشتیوں کے ذریعے ایران سے یمن ہتھیار روانہ کرنے کی کوشش کے دعوے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک امریکی مبصر کے حوالے سے لکھا کہ واشنگٹن ایران میں نام نہاد اعتدال پسندوں کی تقویت اور سپاہ پاسداران پر دباؤ ڈالنے کے درپے ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت الہگ العظمی سید علی خامنہ ای نے نئے ایرانی سال کے آغاز پر حضرت امام رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں زائرین اور مجاورین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امریکی پالیسی کی وضاحت کی اور فرمایا کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے بہت سے اختلافات ہیں اور ان اختلافات کو حل کیا جانا چاہئے ۔ لیکن امریکہ کے نزدیک ان اختلافات کو حل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اصولوں اور تمام ریڈ لائنوں سے دستبردار ہو جائے۔
امریکہ بزعم خویش پابندیوں کو جاری رکھنے اور اس طرح عمل کرنے کے درپے ہے کہ وہ اپنی وزارت خزانہ کے ذریعے قانونی رکاوٹیں کھڑی کر کے ایران کے ساتھ بڑے بڑے بینکوں اور کمپنیوں کے مالی معاملات کی راہ میں حائل ہو جائے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے مطابق امریکہ کا یہ رویہ پکی دشمنی کی علامت ہے۔
لیکن ایران انقلاب کے اصولوں اور مقاصد کے بارے میں ہرگز مذاکرات نہیں کرے گا اور اس نے تسلط پسند طاقتوں کی سازشوں کے مقابلے میں اپنی ثابت قدمی کے ذریعے یہ ثابت کردیا ہے کہ دشمن ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکتے ہیں۔