شام کے بحران کے حل سے متعلق اسٹیفن دی میستورا کی مشاورت
شام کے بحران کے خاتمے سے متعلق جنیوا امن مذاکرات کے نئے دور کے موقع پر شام کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے اسٹیفن دی میستورا نے اس بحران کے حل کے لئے ساز گار ماحول پیدا کرنے کے مقصد سے روس، شام، ایران، ترکی اور سعودی عرب کے حکام کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
اسٹیفن دی میستورا نے ، کہ جو روسی حکام کےساتھ مشاورت کےلئے ماسکو کے دورے پر ہیں، منگل کے دن سہ پہر کے وقت روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ مذاکرات کے بعد شام کے بحران کے خاتمے سے متعلق جنیوا امن مذاکرات گیارہ اپریل کو ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عالمی برادری خصوصا شام کےبحران کے حل میں موثر ممالک کی جانب سے اس بحران کو حل کرنےکی کوشش کی اپیل کی۔
اسٹیفن دی میستورا نے مزید کہا کہ وہ جنیوا امن مذاکرات کی کامیابی کے امکانات میں اضافہ کرنے اور شام کے بحران کے یقینی حل کا راستہ ہموار کرنے کے لئے آئندہ چند دنوں کے دوران تہران، دمشق، انقرہ اور ریاض کا دورہ کریں گے۔
سرگئی لاوروف نے بھی اس ملاقات میں شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ روس نے علاقائی اور دوسرے ممالک کے برخلاف ہمیشہ سیاسی طریقوں اور شامی فریقوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے شام کے بحران کے حل پر تاکید کی ہے۔
گیارہ اپریل کو ہونے والے مذاکراتی عمل کی تقویت کے لئے دی میستورا کے دورۂ روس کے موقع پر شام کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں شام میں جنگی کارروائیوں کے روکے جانے سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر دمشق کی پابندی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ اس کونسل کو دہشت گرد گروہوں کی حامی حکومتوں کو اس حمایت سے روکنے کے لئے اقدامات انجام دینے چاہئیں۔
اس بیان میں مزید کہا گیا ہےکہ مختلف طاقتوں کے پٹھو دہشت گرد گروہ مختلف صوبوں میں رہائشی علاقوں پر گولہ باری کر کے شام میں جنگ بندی سے متعلق اقدامات کہ جن کی منظوری اقوام متحدہ نے دی ہے، کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ گیارہ اپریل پیر کے دن جنیوا میں شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسٹیفن دی میستورا کی نگرانی میں شام کی حکومت اور مخالفین کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔ اس بات کا امکان پایا جاتا ہےکہ اسٹیفن دی میستورا کی نگرانی میں شام کی حکومت اور مخالفین کے درمیان بالواسطہ طور پر ہونے والے ان مذاکرات میں جھڑپوں کے خاتمے، محاصرہ شدہ علاقوں میں امداد پہنچائے جانے، سیاسی عمل کے جائزے، آئین کی تدوین اور انتخابات کے انعقاد کے لئے وقت کے تعین کو زیر بحث لایا جائے گا۔
حالیہ مہینوں کے دوران شام کے بحران میں کمی لانے کے رجحان خصوصا روس، امریکہ، ایران اور شام کی حکومتوں کی جانب سے اس رجحان کے مثبت اشارے نظر آئے ہیں لیکن اس کے باوجود شام کی حکومت کے مخالفین اور ان کے حامیوں کے اختلافات کی وجہ سے جنیوا مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی شام کے بحران کے پانچ برسوں کے بعد اس ملک کی حکومت اور مخالف گروہوں کے درمیان مذاکرات کا ہموار ہونا ہی اس بحران کے حل کے سلسلے میں آگے کی جانب ایک قدم شمار ہوتا ہے۔
شامی اور بین الاقوامی ذرائع کی رپورٹ کے مطابق حالیہ پانچ برسوں سے دنیا کے باون ممالک سے دسیوں ہزار دہشت گردوں نے دہشت گرد گروہوں اور شام کے اندر اور شام سے باہر موجود ایک سو سے زیادہ شامی گروہوں نے بشار اسد کی حکومت کے خلاف بھرپور جنگ شروع کر رکھی ہے۔ جس کے نتیجے میں اب تک ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں زخمی ہوئے ہیں جبکہ کئی لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں اور اس ملک کی بنیادی تنصیبات کو کئی ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔