میانمار کی نئی حکومت اور مسلمان
میانمار میں جمہوری حکومت کا کام شروع ہونے کے ساتھ ہی میانمار کے سرکاری ذرائع نے ایک سو اڑتیس سیاسی قیدیوں اور سرگرم طلباء کی رہائی کی خبر دی ہے۔
ان ایک سو اڑتیس سیاسی قیدیوں کو جمعے کی رات رہا کیا گیا۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق مگوی، یانگوں اور ماندلائی علاقوں سے ہے۔ رہائی پانے والے افراد میں پچیس خواتین بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ دوہزار ایک سو اٹہتر قیدیوں کو اچھے طرزعمل اور نئے سال کی مناسبت سے رہا کیا گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق رہا شدہ افراد میں انہتر طلباء کے نام بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں میانمار کے صدر تین کیاو نے معافی دی ہے۔
ان قیدیوں کو حکومت میانمار کی خصوصی مشیر آنگ سانگ سوچی کے اس وعدے کےایک روز بعد رہا کیا گیا کہ سیاسی قیدیوں اور دیگر سیاسی سرگرم افراد کو صدر کی معافی دلائیں گی جنہیں غیر منصفانہ طور گرفتار کیا گیا تھا۔ سوچی نے ایک بیان میں وعدہ کیا تھا کہ سیاسی قیدیوں اور دیگر قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ بیس اپریل کو میانمار کے نئےسال کی چھٹیوں کے بعد جاری رہے گا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق قومی لیگ برائے جمہوریت کی کی سربراہ آنگ سانگ سوچی نے جو حال ہی میں اقتدار میں آئی ہیں سیاسی قیدیوں اور طلباء کو رہا کرکے یہ ظاہر کرنا چاہتی ہیں کہ ان کے ملک میں سیاسی لحاظ سے گھٹن کا ماحول نہیں ہے۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتی ہیں کہ میانمار کی جمہوری حکومت کو اپنے مخالفین سے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے اور وہ مخالفین کے ساتھ فوجی حکومت سے مختلف رویہ اپنائے گی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق میانمار کی جمہوری حکومت کی اس طرح کی سیاست اور پالیسی داخلی مفادات کو پورا کرنے کے بجاے بین الاقوامی حلقوں کی حمایت حاصل کرنا ہے تا کہ میانمار کی پوزیشن کو علاقائی اور عالمی سطح پر مستحکم بنایا جاسکے۔
یہ ایسے عالم میں ہے کہ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ میانمار کی مشکلات میں صرف سیاسی قیدیوں کا مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ اس ملک کو مختلف اقتصادی، سماجی مسائل نیز اقلیتوں کے حق میں تعصب اور ظلم وستم کا سامنا ہے۔
میانمار کے عوام کو توقع ہے کہ آنگ سانگ سوچی اپنی سیاسی چالوں کےساتھ ساتھ ان مسائل کو بھی حل کریں۔ اس بات میں شک نہیں ہے کہ مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند بودھوں کا ظلم و ستم کہ جس پر اقوام متحدہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اس نے سیاسی قیدیوں کے مسئلے سے زیادہ عالمی حلقوں میں میانمار کی ساکھ خراب کی ہے۔
حکومت میانمار روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کا شہری تسلیم نہیں کرتی ہے اسی وجہ سے حالیہ برسوں میں انتہا پسند بودھوں نے اپنے ملک کے بعض سیاسی اور فوجی حلقوں کی حمایت سے مسلمانوں کو سرے سے ختم کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے اور انہوں نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اور ان کے تشدد میں دسیوں ہزار مسلمان زخمی بھی ہوئے ہیں جبکہ بے شمار اپنا گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ ملکوں میں فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔
اس صورتحال پر عالمی حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے۔ اس بناپر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کی صورتحال اور ان کے شہری حقوق کی ادائیگی اور ان کے لئے سیکورٹی فراہم کرنے سے عالمی سطح پر میانمار کی پوزیشن میں بہتری آئے گی۔
آنگ سانگ سوچی کی حکومت کے وزیر مذہبی امور کی جانب سے مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری قراردئے جانے کے بعد اس بات کی توقع کرنا مشکل ہے میانمار کی نئی حکومت بھی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے گی۔
اس صورتحال کے جاری رہنے سے سوچی اور ان کی پارٹی کی حکومت کی پوزیش تیزی سے خراب ہوسکتی ہے اور انتہا پسند بودھ حالات سے غلط فائدہ اٹھانے اور روہنگیا مسلمانوں کےخلاف حملے کرنے کے لئے مزید گستاخ بن سکتے ہیں۔