Apr ۱۴, ۲۰۱۶ ۱۸:۰۸ Asia/Tehran
  • استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم کا  سربراہی اجلاس

اسلامی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس آج استنبول میں شروع ہوگیا ہے۔ یہ اجلاس جمعرات اور جمعے کو جاری رہے گا۔

اس اجلاس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی بھی شرکت کررہے ہیں۔ اس سے پہلے اسلامی تعاون تنطیم کے وزرا خارجہ کا اجلاس منعقد ہواتھا جس سے ایران کے وزیر خارجہ نے خطاب کرتے ہوئے اسلامی ملکوں کے اتحاد پر تاکید کی تھی اور کہا تھا کہ ملکوں کے مسائل اور باہمی اختلافات دو طرفہ گفتگو سے حل ہونے چاہیے نہ یہ کہ دوطرفہ مسائل کو حل کرنے کےلئے چند طرفہ نشست بلائی جائے۔

ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایران کے خلاف سعودی عرب کے اقدامات پر رد عمل ظاہر کیا۔ انہوں نے ایران اور حزب اللہ لبنان کے خلاف اسلامی تعاون تنظیم کے اختتامی بیان میں شامل کئے گئے کچھ نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام اسلامی اتحاد کی روح کے خلاف اور صیہونی حکومت کے مفادات کی راہ میں ہے۔ محمد جواد ظریف نے اس طرح کے اقدامات کے خطرناک نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلط کردہ جنگ کے دوران عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام کی طرف سے اسلامی تعاون تنظیم کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کی یاد دہانی کرائی۔ انہوں نے یہ سوال کیا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے بعض ممالک آخر کس وجہ سے وہی شکست خوردہ پالیسیاں اپنارہے ہیں؟

سعودی عرب علاقے میں منفی اور تفرقہ انگیز پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جس سے تمام ملکوں کو نقصان پہنچے گا جبکہ استنبول اجلاس ایک مناسب موقع ہے تا کہ ایران اور تمام اسلامی ممالک عالم اسلام کی ایک واضح اور شفاف تصویر پیش کرسکیں اور حقیقی خطروں کا مقابلہ کرنے کےلئے راہ ہائے حل پیش کرسکیں۔

فلسطین، شام،یمن، لیبیا اور افریقہ میں مسلمانوں کی نامناسب صورتحال اور علاقے میں صیہونی حکومت اور تکفیری دہشتگرد گروہ کی طرف سے لاحق خطرے ان مسائل میں سے ہیں جن پر آج حقیقت پسندانہ نظر ڈالی جانی چاہیے اور انہیں حل کرنے کےلئے صحیح عمل کیا جانا چاہیے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں اس بات کا مظاہرہ ہونا چاہیے کہ یہ تنظیم عالم اسلام کے مسائل حل کرنے میں موثر کردار کی حامل ہے اور اس اجلاس میں اس کردار کو سب کے سامنے شفاف اور واضح طریقے سے پیش کیا جانا چاہیے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسلامی ملکوں کا ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا اور پوزیشن خراب کرنا اسلام کے دشمنوں بالخصوص اسرائیل کے فائدے میں ہے خاص طور سے اس وجہ سے کہ اسلامی ممالک کے تمام مسائل کا سرچشمہ اندرونی اسباب نہیں ہیں بلکہ کچھ مسائل مداخلت پسندانہ پالیسیوں اور بحرانوں کی وجہ سے بھی ہیں جو اسلامی ملکوں پر سیاسی، اقتصادی اور علمی اور سائنسی میدانوں میں مسلط کئے گئے ہیں اور ان کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک علمی اور سائنسی لحاظ سے پسماندہ ہیں۔ اسلامی ممالک کے خلاف ناحق مغربی میڈیا وار اور اسلامو فوبیا کے بہانے پروپگینڈے جاری ہیں جبکہ اسلامی ممالک خود انتہا پسندانہ تشدد کا شکار ہیں۔ یاد رہے یہ انتہاپسندانہ تشدد مغربی ملکوں سے اسلامی ملکوں میں پھیلا ہے۔

توقع کی جاتی ہے کہ استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے جو پیغام اھل عالم کو پہنچے گا وہ عالم اسلام کے مسائل و مشکلات کے مقابل اتحاد و انسجام کا پیغام ہوگا۔ لیکن سعودی عرب اسلامی ملکوں کو دیگر مسائل میں الجھانے اور صیہونی حکومت کے مقابلے میں استقامی محاذ کو کمزور کرنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ استنبول اجلاس کے موقع پر مغرب بدستور اسلامی ملکوں کے اتحاد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی میں مشغول ہے اور امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ان اھداف کے لئے اپنی پالیسیوں کو ایرانو فوبیا پر متمرکز کررکھا ہے۔

ایران میں انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں امریکہ کی سراسر جھوٹی رپورٹ اور اسی بہانے یورپی یونین کی پابندیوں کی مدت میں توسیع اور اسی کے ساتھ ساتھ استنبول سربراہی اجلاس میں ایران کے خلاف سعودی عرب کے منفی اقدامات کا ھدف ایک ہی ہے۔ ان اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ جس چیز کو مغرب اور اس کے علاقائی اتحادیوں کی نظر میں ترجیح حاصل ہے وہ اسلامی ملکوں کو متحد ہونے سے روکنا ہے۔ ان کا ھدف یہ ہے کہ استنبول اجلاس اسلامی ملکوں کے اختلافات اور اندرونی مسائل کا اکھاڑا بن جائے اور سعودی عرب مغرب کو یہ موقع دینے کے لئے دشمنان اسلام کی بھرپور خدمت کررہا ہے۔

ٹیگس