دوحہ میں اوپیک کا لاحاصل اجلاس
تیل کی پیداوار میں اضافہ روکنے کے لئے دوحہ میں ہونے والے آئل مذاکرات، سعودی عرب کی مخالفت کی بناء پر تعطل سے دوچار ہو گئے۔
تیل پیدا اور برآمد کرنے والے ملکوں کے درمیان تیل کی پیداوار کے عمل کو مستحکم بنانے کے بارے میں مشترکہ اجلاس اتوار کے روز دوحہ میں تشکیل پایا جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا۔ دوحہ اجلاس کے اختتام کے بعد روس کے وزیر توانائی الیگزنڈر نوواک نے کہا کہ وہ سمجھتے تھے کہ دوحہ مذاکرات، ایک سمجھوتے پر دستخط کے لئے انجام پا رہے ہیں اور وہ اسی امید کے ساتھ دوحہ آئے تھے کہ تمام فریق اس سمجھوتے پر دستخط کریں گے۔ نوواک کے مطابق وہ سمجھوتہ ہی ختم ہو گیا اس لئے کہ سعودی عرب نے ایران کی شراکت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انھوں نے سعودی عرب کی اس درخواست کو غیر منطقی قرار دیا ہے اس لئے کہ تہران نے دوحہ مذاکرات میں شرکت ہی نہیں کی ہے۔
اس سے قبل ایران کے وزیر پٹرولیم نے تاکید کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ پابندیوں کے خاتمے کے پیش نظر ایران، تیل کی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ جاری رکھے گا اور تیل کی پیداوار میں اضافہ روکنے کے عمل میں اس وقت شامل ہو گا جب تیل کی اپنی پیداوار کو ماضی کی مانند چالیس لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچا دے گا۔ سعودی حکام نے دوحہ اجلاس سے قبل ہی کہا تھا کہ ریاض، ایران کے بغیر کسی سمجھوتے پر دستخط نہیں کرے گا۔
سعودی عرب کی جانب سے یہ ضد اور ہٹ دھرمی ایسی حالت میں جاری ہے کہ اس نے اپنی معینہ مقدار سے زائد تیل کی پیداوار اور اس عمل کو جاری رکھتے ہوئے تیل کی منڈی میں تقاضے سے زیادہ تیل پہنچا کر اسے سخت دھچکا لگایا ہے۔ سعودی حکام نے کہا تھا کہ تیل کی قیمت اگر بیس ڈالر بیرل سے بھی نیچے چلی جاتی ہے تو بھی وہ کوئی پرواہ نہیں کریں گے۔
اس طرح کے عمل پر جاری اصرار سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی آنا سیاسی محرکات کا حامل مسئلہ رہا ہے۔ اوپیک و غیر اوپیک کی سطح پر تیل کی پیداوار کے لئے سعودی عرب کی پالیسی، اب تک بہت زیادہ نقصان دہ واقع ہوئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ تیل کی قیمت نیچے آنے سے نقصان اور فائدہ اٹھانے والے آخر کون سے ممالک ہیں اور عالمی منڈیوں میں اس بلیک گولڈ کا مستقبل کیا بنے گا؟
تیل کی منڈی میں ایران کی واپسی سے نقصان اٹھانے والے ملکوں میں خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک شامل ہیں۔ اس لئے کہ ایران کے تیل کے بائیکاٹ کے خاتمے سے ان ممالک کے ہاتھوں سے وہ موقع نکل گیا جو اس بائیکاٹ کی بناء پر عارضی طور پر ان کو میسر ہوا تھا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایران، تیل اور گیس کے بڑے ذخائر کا حامل ہے اور ایران میں تیل کے ذخائر کا تخمینہ ایک سو ساٹھ ارب بیرل سے زائد لگایا گیا ہے اور یہ ایران کا حق ہے کہ اپنی تیل پیدا کرنے کی توانائی کے مطابق وہ تیل کی منڈی میں موجود رہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی آنے سے روس کی معیشت کو بھی نقصان پہنچا ہے اس لئے کہ اس ملک کی نصف آمدنی کا دارومدار تیل کی ہی برآمدات پر ہے۔ حالانکہ روس اوپیک میں شامل نہیں ہے۔ ونزوئیلا بھی تیل پیدا کرنے والا ایک ایسا ملک ہے کہ جسے اوپیک میں شامل کسی بھی ملک سے کہیں زیادہ تیل کی قیمت اوپر آنے کا انتظار ہے۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں تقریبا دو برس قبل تیل کی بے تحاشا برآمدات اور تیل کے تقاضوں میں کمی آنے کے بعد لگ بھگ اسّی فیصد تک کمی آئی ہے۔
اس وقت ایک سال سے زائد عرصے سے سعودی عرب کے اصرار کی بناء پر اوپیک نے فیصلہ کیا ہے کہ غیر اوپیک، خاص طور سے امریکہ میں شیل تیل پیدا کرنے والے ملکوں پر دباؤ کے لئے تیل کی پیداوار میں کمی نہیں کی جائے گی۔ تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم نے نومبر دو ہزار چودہ میں اپنی یومیہ پیداوار کی شرح تیس کروڑ بیرل تیل تک باقی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مگر تیل کی منڈی کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر دوحہ اجلاس کی ناکامی، تیل پیدا کرنے والے ممالک کے لئے تشویشناک ہے۔ حالانکہ تیل کی قیمت گرنے سے نقصان اٹھانے والے ملکوں کے مقابلے میں فائدہ اٹھانے والے ممالک بھی ہیں اور یہ تیل کا زیادہ استعمال کرنے والے چین اور جاپان جیسے وہ ممالک ہیں جو تیل کی قیمت میں کمی اور سعودی عرب کے سیاسی کھیل سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔