ایران کے اثاثوں کی ضبطی، ایرانو فوبیا کی پالیسی کا تسلسل
اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب صدر نے کہا ہے کہ ایرانی حکومت، امریکی حکومت سے اپنے اثاثے واپس لینے کے لیے تمام قانونی طریقوں سے استفادہ کرےگی-
ایران کے سینٹرل بینک کے سربراہ ولی اللہ سیف نے بھی کہا ہے کہ ایران کے اثاثوں کو بیروت میں امریکی بحریہ کے فوجی اڈے میں ہونے والے دھماکے میں ایران کے ملوث ہونے کے بے بنیاد الزامات کے بہانے امریکی سپریم کورٹ کے حکم سے منجمد کیا گیا ہے-
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اس فیصلے کو اسلامی جمہوریہ ایران کے اثاثے میں خرد برد قرار دیا ہے-
امریکی سپریم کورٹ نے بدھ بیس اپریل کو اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ ایران کے منجمد شدہ اثاثوں سے تقریبا دو ارب ڈالر ان افراد کے اہل خاندان کو دیئے جائیں جو انیس سو تراسی میں بیروت میں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہوئے تھے -
اس اقدام کے ساتھ ہی جامع مشترکہ ایکشن پلان پر عمل درآمد میں امریکہ کی جانب سے رخنہ اندازی ذہن میں یہ خیال پیدا کرتی ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بعد امریکی دشمنی کا نیا باب شروع ہو رہا ہے-
امریکہ کے اس اقدام پر کھل کر ردعمل اور تنقیدیں سامنے آئی ہیں- خاص طور پر ایسی حالت میں کہ ایران کے وزیرخارجہ نے ابھی حال ہی میں جامع مشترکہ ایکشن پلان کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے گفتگو بھی کی ہے-
اسلامی جمہوریہ ایران نے جامع مشترکہ ایکشن پلان کے تحت معاہدوں پر عمل کیا ہے اور اس معاہدے کی پابندی کے سلسلے میں اپنی نیک نیتی کو ثابت بھی کر دکھایا ہے، لیکن امریکہ ، مختلف طریقوں سے معاہدے پر عمل درآمد سے پیچھے ہٹ رہا ہے-
اکونومیسٹ جریدے کے مطابق تیرہ اپریل کو امریکی وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار نے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ امریکہ نے ایرانی اثاثے منجمد کر رکھے ہیں-
اس کے باوجود ایران کا سو ارب ڈالر کا سرمایہ جس کے بارے میں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ سرمایہ کاری کے شعبے میں رونق و ترقی کا باعث بنے گا ابھی تک ایران میں نہیں پہنچا ہے- اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ واشنگٹن اب بھی ایران میں سرگرم کمپنیوں کو بینکوں کے درمیان عالمی مالیاتی نظام تک دسترس پیدا نہیں کرنے دے رہا ہے- دوہزارنو کے بعد سے امریکہ کی وزارت خزانہ کے غیرملکی اثاثوں کے کنٹرول آفس نے پابندیوں سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں پر چودہ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا ہے-
یہ صورت حال ان معاہدوں پر برے اثرات مرتب کرسکتی ہے کہ جو جامع مشترکہ ایکشن پلان کے بعد ایران اور دوسرے ممالک کے درمیان انجام پائے ہیں جبکہ امریکہ ، ایران کا براہ راست تجارتی فریق نہیں ہے لیکن اس کی رخنہ اندازیاں اور خلاف ورزیاں ایران کے اقتصادی تعلقات میں فروغ میں حائل ہو رہی ہیں-
امریکہ ، جامع مشترکہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کو تین مہینے سے زیادہ کا عرصہ گذرنے کے بعد بھی درحقیقت ایران کے خلاف سیاسی اور قانونی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ جن کا بظاہر جامع مشترکہ ایکشن پلان سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ان کے اثرات پابندیوں سے کم نہیں ہیں - بین الاقوامی قانون کے لحاظ سے اس طرح کے اقدامات میں کافی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں-
عدلیہ کے ذریعے ایران کے اثاثوں کو منجمد کرنے کا حکم تقریبا آٹھ سال قبل صادر ہوا اور اس فیصلے پر عمل درآمد اور اثاثوں کو منجمد کرنے کا عمل دوہزار بارہ میں انجام پایا-
امریکہ ، ایران کے ذریعے مبصر رکھنے کی اجازت بھی نہیں دے رہا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اثاثوں کو امریکی سول عدالتوں کے نام نہاد فیصلوں سے ضبط کرلیتا ہے-
البتہ یہ رویہ صرف مالی بلیک میلینگ اور باج خواہی تک ختم نہیں ہوتا بلکہ اپنی ماہیت کے لحاظ سے ایسی سافٹ وار یا نرم جنگ ہے کہ جو ایران کو سلامتی کے لئے خطرہ پیدا کرنے والے ملک کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے-
ایران کے خلاف بلاثبوت و دلیل دعوے کرنے کی پالیسی ، ایسی روش ہے کہ جس پر امریکی حکام ماضی سے لے کر اب تک عمل پیرا رہے ہیں-
حالیہ اقدامات بھی امریکہ کو اس کے اسی سابقہ مقصد یعنی ایرانوفوبیا تحریک کی کڑی ہیں اور ایران کو یکہ و تنہا رکھنے کے مقصد سے نزدیک کرتے ہیں-
امریکہ کا یہ رویہ ایسا موضوع ہے کہ جس کا پوری سنجیدگی اور بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے توسط سے جائزہ لینا چاہئے-