Apr ۲۴, ۲۰۱۶ ۱۹:۲۳ Asia/Tehran
  • امریکی اشارے پر سعودی عرب کی جانب سے داعش دہشت گرد گروہ کا قیام

امریکی ذرائع ابلاغ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے داعش گروہ سعودی عرب کا پروردہ ہے اور سی آئی اے بھی اس بات کو جانتی ہے۔ یہ رپورٹ امریکی ذرائع ابلاغ میں سرفہرست قرار پائی ہے۔

سعودیوں کے اعتراف کی رپورٹ کو پہلے برطانوی اخبار فائیننشل ٹائمز نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بارے میں ایک خبر میں شائع کیا اور لکھا کہ سعودیوں نے جان کیری سے کہا ہے کہ داعش گروہ ان کا ہی پروردہ ہے اور سی آئی اے اس بات کو جانتی بھی ہے۔ برطانیہ کے اس اخبار کے حوالے سے امریکی ذرائع ابلاغ نے بھی اس رپورٹ کا وسیع پروپیگنڈہ کیا۔

سعودیوں نے امریکی وزیر خارجہ سے گفتگو میں تاکید کے ساتھ یہ بھی کہا کہ مشرق وسطی میں امریکی مداخلت کی بناء پر ریاض نے پہلے القاعدہ بنائی اور پھر داعش کی بنیاد رکھی۔ سعودیوں کے دعوے کے مطابق دو ہزار تین میں عراق پر امریکہ کے حملے سے توازن، ایران کے حق میں تبدیل ہوا اور اس تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ کئے جانے کی ضرورت تھی۔

امریکہ کے کہنہ مشق سیاستداں اور معروف مصنف رونالڈ ارنسٹ پال نے ران پال ادارے کے ڈائریکٹر ڈینیل مک ایڈمز سے گفتگو میں کہا ہے کہ داعش گروہ کی تشکیل کے بارے میں سعودیوں کا اعتراف کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ ارنسٹ پال کے بقول سعودی عرب، سی آئی اے کو اطلاع دیئے بغیر داعش گروہ نہیں بنا سکتا تھا۔ امریکہ کے اس مصنف نے کہا کہ امریکی وزارت دفاع اور سی آئی اے نے بحران شام شروع ہوتے ہی اس ملک کے اقتدار سے بشار اسد کو ہٹائے جانے کا راگ الاپنا شروع کر دیا تھا اور اس مقصد کے لئے انھیں داعش جیسے گروہ کی ضرورت تھی۔ ران پال ادارے کے ڈائریکٹر ڈینیل مک ایڈمز کا بھی خیال ہے کہ سعودیوں نے داعش گروہ بنایا اور اس کی مالی مدد کی۔ تاہم امریکہ نے ہی ایسے حالات بنائے کہ القاعدہ اور داعش جیسے گروہ، عالمی سطح پر نمودار ہوں۔ انھوں نے کہا کہ یہ مسئلہ مشرق وسطی میں امریکہ کی مداخلت پسندانہ پالیسی سے جڑا ہوا ہے۔

سعودی عرب، وہابیت کا گہوارہ ہونے کے سبب انتہا پسند گروہوں کی تشکیل میں براہ راست کردار کا حامل ہے اور یہ انتہا پسند گروہ وہابی افکار کے ساتھ مختلف ناموں اور طریقوں سے اپنے وجود کا اعلان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب نے طالبان کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ طالبان نے رفتہ رفتہ سعودی عرب کی دولت سے استفادہ کرتے ہوئے وہابیت کی تشہیر شروع کی اور انتہا پسندوں کی نئی نسل کی پرورش کی اور ارنسٹ پال کے مطابق ان ہی کی نسل سے آج میدان عمل میں داعش کی شکل میں گروہ کا مشاہدہ کیا گیا۔

داعش، دو ہزار تین میں عراق کے بعض علاقوں پر قبضہ کر کے اپنے وجود کا اعلان کرتی ہے اور اس گروہ کا سرغنہ ابوبکر البغدادی، جیل میں بند القاعدہ کا خطرناک رکن تھا جو پھر امریکہ کی وساطت سے آزاد ہو جاتا ہے اور عراق میں بعثی حکومت کے زوال کے بعد اس کے عناصر کے تعاون سے داعش تشکیل پاتی ہے تاکہ حکومت بغداد کو مسائل و مشکلات سے دوچار کیا جا سکے۔ عراق کے بعثی عناصر کی جانب سے داعش دہشت گرد گروہ کے ساتھ تعاون امریکہ اور سعودی عرب کی مشترکہ پالیسی ہے۔

اسی طرح گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملے کے بارے میں رپورٹ سے اٹھّائیس صفحات اڑا دیئے جانے سے دہشت گردی کی حمایت میں سعودی عرب کے براہ راست کردار کی نشاندہی ہوتی ہے مگر واشنگٹن، ریاض کے ساتھ تعاون کی بناء پر یہ نہیں چاہتا کہ گیارہ ستمبر کے حملے میں سعودی عرب کا براہ راست کردار سامنے آجائے۔ کہا جاتا ہے کہ رپورٹ سے ان صفحات کو نکلوانے میں سی آئی اے کا بھی براہ راست یا بالواسطہ کردار رہا ہے۔ چنانچہ ان تمام اقدامات سے اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ گیارہ ستمبر کے حملے میں سعودی عرب کا پورا کردار رہا ہے اور علاقے میں بحران و بدامنی پیدا کرنے کے لئے دہشت گرد گروہوں کے قیام سے متعلق سعودی عرب کی پالیسی سے امریکی سی آئی اے باخبر رہی ہے۔

ٹیگس