Apr ۲۷, ۲۰۱۶ ۱۹:۰۳ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف امریکہ اور بعض عرب ممالک کے بے بنیاد دعوے

علاقائی ممالک میں ایران کی مداخلت کا دعوی سعودی عرب کے اشتعال دلانے کی وجہ سے خطے کے بعض عرب ممالک کی مشترکہ حکمت عملی میں تبدیل ہو چکا ہے۔

اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے حالیہ دنوں کے دوران بحرین اور بعض دوسرے عرب ممالک کے حکام نے ایک جیسے بیانات دیئے ہیں۔ گلف نیوز ویب سائٹ نے اپنے آج کے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسی آل خلیفہ اور مراکش کے بادشاہ محمد ششم نے ایران پر بحرین اور خلیج فارس تعاون کونسل کے دوسرے رکن ممالک میں مداخلت اور دہشت گردی کی حمایت کاالزام لگایا ہے۔

اسی سے ملتا جلتا دعوی منگل کے دن بحرین کے بادشاہ اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے قاہرہ میں آپس میں ملاقات میں دہرایا۔ بحرین کے بادشاہ نے اس ملاقات میں بقول ان کے خطے میں موجود خطرات کے مقابلے کے لئے ایک مشترکہ عرب فوج کی تشکیل کی تجویز کی حمایت کی۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ بیانات امریکی صدر باراک اوباما کی موجودگی میں بائیس اپریل کے دن ہونےوالے خلیج فارس تعاون کونسل کے حالیہ اجلاس میں طویل المیعاد منصوبے سے متعلق پیش کی جانے والی اسٹریٹیجی پرعملدرآمد کا پیش خیمہ ہے۔

اس تجویز کےایک حصے میں آیا ہے کہ یہ اسٹریٹیجی دو طرفہ وعدوں پر استوار ہےاور اس کا مقصد سیکورٹی کی صورتحال بہتر بنانا اور امن قائم کرنا ہے۔

گزشتہ برس کے دوران اس سلسلے میں امریکہ اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے درمیان وزرا کی سطح پر متعدد اجلاس اور دو طرفہ مذاکرات کے دسیوں دور ہوئے جن کا مقصد کیمپ ڈیوڈ اجلاس میں کئے جانے والے وعدوں کو عملی جامہ پہنانا تھا۔

مئی سنہ دو ہزار پندرہ میں ہونے والے کیمپ ڈیوڈ اجلاس میں امریکہ اور خلیج فارس میں اس کے شرکا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، قطر اور بحرین نے خطے کے مسائل کے حل کے لئے ایک مضبوط شراکت کا عہد کیا تھا۔ امریکہ اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے وزرائے دفاع نے بیس اپریل کو بھی ریاض میں ملاقات کی اور زیادہ سے زیادہ سیکورٹی تعاون کی تقویت کے لئے مزید اقدامات انجام دینے پر تاکید کی۔ ریاض اجلاس میں منظور شدہ تجویز میں امریکی فوجیوں کی جانب سے تربیت دیئے جانے کے ساتھ خلیج فارس کی خصوصی فوج کی تشکیل بھی شامل ہے۔ اس تجویز کی رو سے امریکہ کو خطے میں اپنی فوجی موجودگی جاری رکھنے کی اجازت حاصل ہوگی۔

سیکورٹی خطرات کے مقابلے کے بہانے کیا جانے والا یہ باہمی تعاون اب ایران کی میزائلی صلاحیت کے سلسلے میں مشترکہ موقف اختیار کئے جانے پر مرکوز ہو کر رہ گیا ہے۔ بنابریں امریکہ نے خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک میں بیلسٹک میزائلوں کے بارے میں فورا خبردار کرنے والا سسٹم نصب کرنے کے عمل میں تیزی لائے گا تاکہ ایران کی جانب منسوب کئے جانے والے نام نہاد خطرات کے مقابلے میں مدد دی جا سکے۔

خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک خصوصا سعودی عرب اور بحرین کو اپنی سیاسی غلطیوں کی وجہ سے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ اس لئے وہ ان مشکلات کا ذمےدار ایران کو قرار دینے اور اس پر الزام لگانے کے ذریعے اصل موضوع کو تبدیل کرنے کے درپے ہیں۔ اس بے بنیاد دعوے کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ خطے میں تفرقہ اور اختلافات کی پالیسی ہے جس کی ذمےداری سعودی عرب نے اٹھا رکھی ہے۔ سعودی عرب نے فوجی مداخلت کے اس حربے کو استعمال کرتے ہوئے پہلے بحرین میں عوامی مظاہروں کو کچلنے کے لئے اپنے فوجی اس ملک میں روانہ کئے اور اس کے بعد یمن کے خلاف باقاعدہ طور پر جنگ شروع کر دی۔

اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے عراق اور شام میں صیہونی تکفیری دہشت گرد گروہوں کی مالی اور اسلحہ جاتی حمایت کے ذریعے خطے کو ایسے بحرانوں سے دوچار کردیا جن کا مقصد بعض ممالک کی حکومتوں کا تختہ الٹنا ہے۔ لیکن سعودی عرب اور خلیج فارس کے دوسرے رکن ممالک کو اس پالیسی سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے بلکہ اس پالیسی سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی اور امریکہ اور اسرائیل کو خطے میں اپنے اہداف کے حصول میں مدد ملے گی۔ بہرحال اس فوجی سیکورٹی اسٹریٹیجی کا نقصان سعودی عرب اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کو ہی ہوگا۔

ٹیگس