طالبان سے مذاکرات کی بجائے جنگ کو ترجیح
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے حال ہی میں اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام آباد پاکستان میں موجود طالبان کے خلاف فوجی اقدامات انجام دے
اب جبکہ افغان حکومت نے طالبان سے مذاکرات کی بجائے جنگ کو اپنی ترجیح قراردیا ہے حکومت پاکستان نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان میں فوجی راہ حل کا مخالف ہے ۔ پاکستان کے وزیراعظم کے خارجہ امور میں مشیر سرتاج عزیز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فوجی آپشن کا گذشتہ چودہ سالوں میں کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے ان کا کہنا تھا مذاکرات کا عمل طویل ہوسکتا ہے لیکن اسکے باوجود افغانستان میں امن و صلح کے قیام کے لئے بہترین راستہ گفتگو اور مذاکرات ہیں۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے حال ہی میں اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام آباد پاکستان میں موجود طالبان کے خلاف فوجی اقدامات انجام دے ۔ سیاسی تجزیہ نگار سرتاج عزیز کے اس بیان کو طالبان کے حوالے سے افغان صدر کے حالیہ مطالبے کا جواب قرار دے رہے ہیں۔
بہرحال افغانستان کے تجزیہ نگار پاکستان کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر تاکید کو اسلام آباد پر بڑھتے ہوئے علاقائی اور داخلی دباؤ کے نتیجے میں حکومت پاکستان کا اپنا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کا حربہ قراردے رہے ہیں۔ کیونکہ افغانستان کی قومی اتحاد کی حکومت نے دوسال پہلے طالبان سے مذاکرات پر تاکید کرتے ہوئے اسلام آباد سے کہا تھا کہ وہ طالبان کو امن مذاکرات میں شرکت پر راضی و آمادہ کریں۔
افغان صدر اشرف غنی نے اس مقصد کے پیش نظر پاکستان کے ساتھ فوجی تعاون بڑھانے،باہمی اختلافات ختم کرنے اور کابل اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔افغان صدر کی نگاہ میں افغانستان میں امن کا راستہ اسلام آباد سے گزرتا ہے اور جب تک اسلام آباد اس راستے پر قدم نہیں بڑھائے گا افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں۔افغان حکام کے مطابق طالبان پاکستان کے آلہ کار ہیں اور اسلام آباد انہیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتا ہے ۔
پاکستان نے افغانستان میں امن کے قیام کے لئے امریکہ ،چین افغانستان اور پاکستان کے نمائندوں پر مشتمل چار فریقی اجلاس منعقد کئے ہیں لیکن عملی طور پر نہ صرف ان اجلاسوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے بلکہ افغان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان اب بھی اس چارفریقی اجلاس کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتا ہے ۔
دوسری طرف افغانستان کے مختلف علاقوں میں طالبان کے حملوں میں شدت اور تیزی اور خاص کر کابل کے حالیہ دھماکے نے افغان حکومت کے صبر کا پیمانے لبریز کردیا ہے اور افغان حکومت نے کہا ہے کہ اب اس نے طالبان سے مقابلے کے لئے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی ہے اور افغان فوج سے کہہ دیا ہے کہ طالبان سے سختی سے نبٹا جائے ۔
ایسا لگتا ہے کہ اس پالیسی نے طالبان گروہ اور پاکستان کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے ۔اگرچہ طالبان نے شروع میں اپنے آپ کو افغان حکومت سے مقابلے کے لئے تیار ظاہر کیا لیکن بعد میں مذاکرات شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پشتو بولنے والوں کی طرف سے طالبان کے خلاف افغان حکومت کی حمایت نے طالبان کی سماجی حیثیت اور پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کردیا ہے ۔اس وقت پاکستان کے عوام اور پشتو بولنے والے افغان شہری ،طالبان کو ایک جنگجو اور جنگ پسند گروہ سمجھنے لگے ہیں جسکی وجہ سے ان پر سخت عوامی دباؤ ہے ۔
بہرحال افغان حکومت کی طرف سے پاکستان سے اب بھی وہی پرانا مطالبہ ہے کہ وہ افغان امن پراسس کے حوالے سے عملی اقدامات انجام دے ۔افغانستان کے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اسلام آباد کی حکومت حقیقت میں سیاسی راہ حل پر یقین رکھتی ہے تو جس وقت بھی وہ اس راستے پر قدم اٹھائے گی تاخیر نہیں سمجھی جائے گی اوراس وقت پاکستان کے لئے یہ موقع میسر ہے کہ وہ طالبان پر دباؤ ڈال کر امن پراسس کا احیا کرے۔