پاکستان کا امن پسندی کا دعوی اور طالبان کا جنگ جاری رکھنے پر زور
پاکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ طاقت کے استعمال اور جنگ کے ذریعے افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے خارجہ امور میں مشیر سرتاج عزیز اور طارق فاطمی نے ہفتے کے روز پاکستان کے اس موقف پر زور دیا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کے نائب سراج الدین حقانی نے طالبان گروہ کے تمام افراد سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اختلافات ختم کر کے جنگ پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت ہے کہ طالبان سنجیدگی سے کام کریں اور جذبے کے ساتھ میدان جنگ میں حاضر ہوں۔
اس بات کے پیش نظر کہ افغانستان کے سیاسی و مذہبی حلقوں کے خیال میں طالبان پر بدستور پاکستان کا اثرورسوخ ہے، افغانستان کی فوج کے ساتھ جنگ جاری رکھنے پر سراج الدین حقانی کی تاکید، افغانستان کے امن عمل کو جاری رکھنے کے سلسلے میں اسلام آباد کے اعلان کردہ موقف کے منافی سمجھی جاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان امن پسندی کا لبادہ اوڑھ کر افغانستان کی رائے عامہ کے اندر اور علاقے میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے اور اسی دوران طالبان گروہ جنگ پر زور دے کر کابل سے ضروری مراعات حاصل کرنے کی غرض سے اسلام آباد کے لیے موقع فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی بنا پر ایک ایسے وقت میں کہ جب افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے امریکہ چین افغانستان اور پاکستان کے نمائندوں کے چار فریقی اجلاسوں کو ناکام قرار دیا ہے، لیکن پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر خارجہ طارق فاطمی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کابل حکومت اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کے لیے ان چاروں ممالک کے نمائندوں کا بھرپور کردار ضروری ہے۔
افغان حکام نے طارق فاطمی کے اس بیان کو کابل حکومت سے مراعات حاصل کرنے کے سلسلے میں ان اجلاسوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔ کیونکہ افغان حکومت کے نقطۂ نظر سے حکومت پاکستان چار فریقی اجلاسوں میں شرکت کر کے طالبان کو افغانستان کے امن مذاکرات کے عمل میں شامل ہونے کی ترغیب دلانے کے بدلے میں کابل حکومت پر اپنے مطالبات تھوپنا چاہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان بےاعتمادی بدستور موجود ہے اور جب تک طالبان گروہ اپنے موقف میں لچک پیدا کر کے افغانستان کے امن عمل میں شامل نہیں ہو جاتا تو یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ افغان حکام افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں پاکستانی حکام کے دعوے کو تسلیم کر لیں گے۔
پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر خارجہ طارق فاطمی نے یہ دعوی کر کے کہ افغانستان میں امن، پاکستان کے وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت کے اہداف کو حاصل کرنے کا باعث بنے گا، پاکستان کے اس موقف کو منطقی اور حقیقی قرار دینے کی کوشش کی ہے لیکن افغانستان کے سیاسی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان صرف عوام اور رائے عامہ کو دھوکہ دینا چاہتا ہے کیونکہ کس طرح یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ طالبان کہ جو پاکستان کی کٹھ پتلی ہیں، افغانستان میں جنگ کی بات کریں اور اس کے بعد افغانستان میں امن و امان کی توقع رکھی جائے۔
افغانستان کے بعض سیاسی حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ طالبان افغانستان میں جنگ پر زور دے کر خود کو ایک خودمختار گروہ کے طور پر ظاہر کرنا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان طالبان کو افغانستان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر راضی کرنے کی قیمت بڑھا سکے۔