May ۱۱, ۲۰۱۶ ۱۹:۲۵ Asia/Tehran
  • عراق کے دارالحکومت بغداد میں بم دھماکہ

عراق میں بدانتظامی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران اپنے عروج پر ہے اسی دوران بغداد کے علاقے صدر سٹی میں ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں پچاس افراد شھید اور ساٹھ سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں۔

دہشت گرد گروہ داعش نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

عراق کی سیاسی شخصیات، جماعتیں اور حکام سیاسی بحران کا شکار ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ عراق میں موجودہ بحران کس نے پیدا کیا ہے یہ کہا جانا چاہئے کہ اس بحران کو وجود میں لانے والوں نے عراق کی حساس صورتحال کو مدنظر نہیں رکھا ہے۔

سیاسی مطالبات جماعتوں، گروہوں اور عوام کا حق ہے لیکن مطالبات کی آواز اٹھانے اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے صورتحال اور وقت کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہئےجبکہ عراق میں اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔

عراق کی فوج اور عوامی رضاکار فورس اس ملک کے مختلف علاقوں خصوصا مغربی علاقوں میں دہشت گرد گروہ داعش کے ساتھ جنگ میں مصروف تھے اور انہوں نے اہم کامیابیاں بھی حاصل کر لی تھیں کہ غفلت کی بنا پر حیدر العبادی کی حکومت کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوگئے۔


ان مظاہروں کی وجہ سے عراقی پارلیمنٹ کا کام عارضی طور پر رک گیا اور دہشت گردانہ کارروائیوں اور دھماکوں کے لئے دہشت گردوں کی صلاحیت بڑھ گئی۔ اس کے علاوہ عراق کی حکومت کی توجہ دہشت گردی کے مقابلے سے ہٹ کر سیاسی بحران کو ختم کرنے پر مرکوز ہوگئی۔ آج مناسب وقت کو مدنظر رکھے بغیر اعتراض کرنے کے عراق کے لئے بہت ہی سنگین منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ دہشت گردی نے ایک بار پھر عراق میں سر اٹھا لیا ہے۔

عراق میں سماجی اور سیاسی دراڑیں گہری ہو گئی ہیں۔ عراق کا سیاسی بحران اس وقت حکومت کی تشکیل، اس سلسلے میں اتحاد کی برقراری اور دہشت گردی کے مقابلے میں کامیابیاں حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور یہ تمام  مشکلات  بجائے خود سیاسی بحران کا سبب ہیں۔ اگرچہ اس کا تعلق عراق کے داخلی امور میں دوسرے ملکوں کی مداخلت پسندانہ پالیسیوں سے ہے  لیکن عراقی شخصیات اور گروہوں میں سیاسی بصیرت کا فقدان بھی موجودہ حالات پیدا ہونے کا اہم سبب ہے۔


عراق کو اس وقت دوسری ہر چیز سے زیادہ اعتراض کرنے والی شخصیات، گروہوں اور عوام کی ہوشیاری اور بصیرت کی ضرورت ہے۔ آج کے عراق کے لئے باہمی اتحاد اور تعاون بہت زیادہ ضروری ہے۔ موجودہ حالات میں قومیت اور فرقہ کو مدنظر رکھنے کے، کہ جو قومی اور فرقہ وارانہ رجحانات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس ملک کی ارضی سالمیت کے خاتمے جیسے بہت ہی منفی نتائج مرتب ہوں گے۔ دوسرے قدم کے طور پر سڑکوں پر نکل کر سیاسی مطالبات سے گریز کرنا چاہئے اور اس کے بعد سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لئے ایک بار پھر سیاسی سمجھوتوں کا راستہ اختیار کیا جانا چاہئے۔

عراق میں دہشت گردی کے مقابلے کے لئے تمام گروہوں کے باہمی تعاون اور گروہی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دی جانی چاہئے۔

ٹیگس