May ۱۵, ۲۰۱۶ ۱۸:۱۵ Asia/Tehran
  • مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کے بارے میں ایرانی نائب وزیر خارجہ کا زاویۂ نگاہ

اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ امریکہ میں موجود انتہا پسند لابیاں، صیہونی حکومت اور سعودی عرب جیسے بعض ممالک ایرانوفوبیا کے حربے کے ذریعے اپنے طور پر اس بات کی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ایران مشترکہ جامع ایکشن پلان کے ثمرات حاصل نہ کر سکے۔

سید عباس عراقچی نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات ایران کی ٹی وی چینل ایک کو انٹرویو کے دوران مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کے سلسلے میں اپنا تجزیہ پیش کیا اور کہا کہ ابھی یورپ کے بڑے بینکوں نے ایران کے اندر کام شروع نہیں کیا ہے لیکن یورپ کے بعض چھوٹے اور درمیانے درجے کے بینکوں نے ایرانی بینکوں کے ساتھ اشتراک عمل کا مظاہرہ کیا اور ایل سی بھی کھول دی ہے۔

سید عباس عراقچی نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اس عرصے کے دوران ایرانی وزارت خارجہ نے اس مشکل کو دور کرنےکے لئے فریق مقابل پر دباؤ ڈالا کہا کہ ان اقدامات کی وجہ سے امریکی اور مغربی حکومتوں نے بعض کام انجام دیئے ہیں لیکن ابھی یہ کام سست روی کا شکار ہیں۔

مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں ایرانی نائب وزیر خارجہ کے بیانات دو پہلووں سے اہمیت کے حامل ہیں۔

اول یہ کہ ان بیانات سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ موجودہ ماحول مشترکہ جامع ایکشن پلان سے پہلے کے ماحول سے مختلف ہے۔ اس کا واضح نمونہ تیل کی عالمی منڈیوں تک سابقہ رسائی کے سلسلے میں مرتب ہونے والے اس ایٹمی معاہدے کے اثرات ہیں۔

ایران کے وزیر پیٹرولیم بیژن نامدار زنگنہ نے ہفتے کے دن تہران میں ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئےکہا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد اور پابندیوں کے خاتمے کے نتیجے میں ایران کی تیل کی پیداوار اور پیٹرولیم مصنوعات کی برآمدات پابندیوں کے زمانے کی نسبت دگنی ہوگئی ہیں۔

سید عباس عراقچی کے بیانات کی اہمیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انہوں نے مشترکہ جامع ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کے سلسلے میں امریکہ کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کی جانے کی جانب اشارہ کیا ہے۔

امریکہ یہ اقدامات اسلام کے مقابلے، ایران کے مقابلے اور شیعہ مذہب کے مقابلے میں انجام دے رہا ہے اور یہ امریکہ اور اس کی پٹھو حکومتوں کی حتمی پالیسی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے اثرات کو اچھی طرح جانتا ہے اور اسی وجہ سے اس پر مکمل عملدرآمد اپنے علاوہ صیہونی حکومت اور خلیج فارس میں اپنے اتحادیوں کے لئے مشکلات کا پیش خیمہ جانتا ہے۔ لہذا وہ اس معاہدے پر عملدرآمد کے بعد کے حالات میں صیہونی حکومت اور سعودی عرب کو تحفظ فراہم کرنےکی کوشش کر رہا ہے۔

مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد کے حالات سے بھی اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ امریکہ اس ایٹمی معاہدے پر مکمل عملدرآمد کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔

سید عباس عراقچی کے مطابق امریکہ کے اندر موجود انتہا پسند لابیوں، صیہونی حکومت اور سعودی عرب کے ایرانوفوبیا پر مبنی اقدامات کے باعث یورپی بینکوں نے ایرانی بینکوں کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں ضروری اعتماد نہیں کیا اور ابھی تک شک و تذبذب کا شکار ہیں۔ البتہ اس صورتحال کا ہمیشہ کے لئے برقرار رہنا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن کو اب یورپی یونین کے مقابلے میں ، کہ جو مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کا پابند ہے، مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔

سید عباس عراقچی نے مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کے سلسلے میں جو نکات بیان کئے ہیں وہ حقیقت میں طویل مدت میں مشترکہ جامع ایکشن پلان کے جائزے سے عبارت ہے۔

سید عباس عراقچی کا کہنا ہےکہ باراک اوباما کی حکومت اور یورپی حکومتیں چونکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کو کامیابی سمجھتی ہیں اس لئے وہ اسے برقرار رکھنا چاہتی ہیں تاکہ اسلامی جمہوریہ ایران اس کے مطابق اسی پلان کے مطابق آگے بڑھتا رہے بنابریں یہ حکومتیں مقدور بھر مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل کرنے کی خواہاں ہیں اور ایران نے بھی اب تک یہ ثابت کیا ہےکہ وہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کے سلسلے میں اپنے حقوق سے ذرہ برابر بھی پسپائی اختیار نہیں کرےگا۔ لیکن اس کے باوجود ان اقدامات کو سنجیدگی سے لینا اور ان کے مقابلے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔

ٹیگس