Jun ۰۷, ۲۰۱۶ ۱۹:۲۴ Asia/Tehran
  • یمن کے مظلوم عوام اور اقوام متحدہ کی قلابازی

اقوام متحدہ نے اپنے گزشتہ موقف سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے یمن پر جارحیت کرنے والے سعودی اتحاد کا نام بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق اپنی بلیک لسٹ سے باہر نکال دیا ہے۔

اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ جب تک اقوام متحدہ اور سعودی اتحاد، یمن پر حملوں میں بچوں کے جاں بحق اور زخمی ہونے کے بار ے میں مشترکہ جائزہ نہیں لے لیتے اس وقت تک سعودی جارح اتحاد کا نام اس بلیک لسٹ سے حذف کر دیا جائے گا۔

اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے نمائندے عبداللہ المعلمی نے دعوی کیا ہے کہ سعودی اتحاد کا نام اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے کسی قید و شرط کے بغیر نکالا گیا ہے۔ انھوں نے دعوی کیا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں قانونی حکومت کو اقتدار کی دوبارہ واپسی اور یمنی عوام کو انسانی امداد فراہم کرنے میں سعودی عرب اور اس کے اتحاد کے کردار کو نطرانداز کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ نے جمعہ کے روز سعودی جارح اتحاد کا نام ان ملکوں اور مسلح گروہوں کی بلیک لسٹ میں شامل کیا تھا کہ جو جنگوں اور جھڑپوں میں بچوں کے حقوق پامال کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی ابتدائی رپورٹ میں آیا ہے کہ سعودی اتحاد دو ہزار پندرہ میں ساٹھ فیصد بچوں کے جاں بحق اور زخمی ہونے کا ذمہ دار ہے۔

سعودی عرب کی سرکردگی میں بعض عرب ملکوں کے اتحاد نے چھبیس مارچ دو ہزار پندرہ سے یمن کے مظلوم عوام کو اپنی وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ اس جارحیت کے دوران بے گناہ اور نہتے یمنی بچوں اور عورتوں کا قتل، اس ملک کی اسی فیصد سے زائد بنیادی تنصیبات کی تباہی اور یمنی عوام کے لیے کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت اس جارحیت کا صرف ایک پہلو ہے۔

اس جارحیت کا ایک اور پہلو یمن کا ہوائی اور بحری محاصرہ ہے کہ جس کے نتیجے میں یمن کے عوام خاص طور پر بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی سرکردگی میں قائم اتحاد، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی خاموشی کے سائے میں یمنی بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے کے لیے ممنوعہ ہتھیار بھی استعمال کر رہا ہے جن میں کلسٹر بم بھی شامل ہیں۔ یمن کی جنگ میں ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال اقوام متحدہ کی انتہائی بےچارگی کو ثابت کرتا ہے اور یہی بےچارگی سعودی عرب کے سامنے اقوام متحدہ کی پسپائی سے معنی خیز تعلق رکھتی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیاہ ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ غیرمتوقع نہیں تھا کہ عالمی امن و سلامتی کا محافظ یہ نام نہاد ادارہ اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنے میں، یمنی عوام کی حمایت کرنے کے بجائے سعودی لابی کے زیراثر اپنا موقف تبدیل کر لے۔

سعودی عرب ایک ایسے وقت میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی ابتدائی رپورٹ کے مقابل مدعی کی حیثیت سے موقف اختیار کر رہا ہے کہ جب یہ ملک جنگ یمن میں جرائم کا مرتکب ہوا ہے اور اسے عالمی برادری کے سامنے جواب دہ ہونا چاہیے۔ جنگ یمن کی مختلف رپورٹیں اقوام متحدہ سمیت سب کے لیے واضح طور پر آشکار کرتی ہیں کہ سعودی اتحاد نے جنگ کے زمانے میں بچوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا ہے اور یمنی بچوں کا ممنوعہ ہتھیاروں کے ذریعے قتل عام کیا جا رہا ہے۔

بھاری اور ممنوعہ ہتھیاروں سے مارے جانے والے یمنی بچوں کے اعداد و شمار اور شدید غربت میں یمنی عوام کی موجودہ زندگی، دنیا میں رائے عامہ کی قضاوت اور فیصلے کے لیے زندہ ثبوت ہے اور اقوام متحدہ کی جانب سے سعودی اتحاد کا نام بلیک لسٹ سے نکالنا ایک جانبدارانہ اقدام ہے۔

اقوام متحدہ نے تاریخ میں ایسے اقدام کئی بار انجام دیے ہیں اور اس ذمہ دار ادارے کو بڑی طاقتوں اور ان کے حامیوں کی لونڈی بنا کر رکھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کا آزادی کے ساتھ کام نہ کرنا، اپنے فرائض پرعمل کرنے میں اس ادارے کی بنیادی کمزوری سمجھا جاتا ہے اور جب تک یہ رویہ جاری رہے گا عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داری پوری ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔

ٹیگس