فلسطین کے وسطی مقبوضہ علاقے، اسرائیل مخالف کارروائیوں کا مرکز
فلسطین کے وسطی مقبوضہ علاقے میں صیہونی حکومت کی وزارت جنگ کے ہیڈکوارٹر کے قریب فلسطینیوں کی صیہونیت مخالف کارروائی نے ایک بار پھر فلسطینی عوام کی تحریک کے زندہ ہونے کو ظاہر کرتے ہوئے اس حکومت کے سیکورٹی نظریات پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
موصولہ رپورٹوں کے مطابق بدھ کی رات مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے مرکز تل ابیب میں صیہونی حکومت کی فوج اور وزارت جنگ کی عمارت کے قریب دو فلسطینی نوجوانوں کی کارروائی میں کم از کم چار صیہونی ہلاک اور دس زخمی ہو گئے کہ جن میں سے تین کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران صیہونیوں کے خلاف فلسطینیوں کی یہ سب سے اہم کارروائی ہے۔
صیہونی حکومت نے گزشتہ سال اکتوبر سے فلسطینیوں کی انتفاضہ تحریک کو کچلنے کے لیے اپنے وحشیانہ اقدامات تیز کر دیے ہیں جن میں اب تک کم از کم دو سو پندرہ فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی اور گرفتار ہو چکے ہیں۔
صیہونی حکومت کی پولیس نے یہ بات بیان کرتے ہوئے کہ وہ تل ابیب میں گزشتہ رات ہونے والی اسرائیل مخالف کارروائی کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے رہی ہے، کہا ہے یہ بات باعث تعجب ہے کہ دو فلسطینی نوجوان کہ جو فلسطینی جہادی گروہوں سے وابستہ نہیں تھے، چیک پوسٹیں عبور کر کے آتشیں ہتھیاروں کے ساتھ تل ابیب پہنچ گئے۔ اس پر اسرائیل کے سیاسی و سیکورٹی حکام سیخ پا ہیں۔
اس سے قبل فلسطینیوں نے کئی بار خاص طور پر چاقوؤں سے صیہونی باشندوں اور فوجیوں پر حملے کیے تھے لیکن یہ بات کہ فلسطین کے عام شہریوں نے صیہونی حکومت کے دارالحکومت تل ابیب میں وہ بھی صیہونی حکومت کی فوج اور وزارت جنگ کی عمارت کے قریب صیہونیت مخالف کارروائی انجام دی ہے، فلسطینی عوام کی جدوجہد کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
یہ کارروائی نہ صرف تل ابیب کی سیکورٹی خطرے میں پڑنے کی وجہ سے بلکہ اس وجہ سے بھی کہ صیہونی حکومت کے لیے ایک دھچکا شمار ہوتی ہے کہ اس نے ظاہر کردیا کہ اسرائیل کا سیکورٹی نظریہ کہ جس پر آٹھ ماہ قبل سے عمل درآمد کیا گیا، غلط ہے۔ صیہونی یہ خیال کر رہے تھے کہ وہ فلسطینیوں کو کچل کر اور انھیں گرفتار کر کے انتفاضہ تحریک کو ختم کر دیں گے۔
اس طرح جو کچھ پیش آیا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل کو اپنی سیکورٹی تھیوری پرخط بطلان کھینچ دینا چاہیے کیونکہ وہ اب حماس، تحریک جہاد اسلامی یا فلسطینی انتظامیہ کو حملوں کا ذمہ دار قرار نہیں دے سکتی اس لیے کہ یہ کارروائی تل ابیب میں ہوئی ہے اور حماس، جہاد اسلامی اور فلسطینی انتظامیہ کا اس علاقے میں کوئی اثرورسوخ نہیں ہے۔
اگرچہ کہا جا رہا ہے کہ تل ابیب میں گزشتہ رات ہونے والی کارروائی کے بعد اسرائیل ماضی کی طرح فلسطینیوں کے خلاف کارروائی میں تیزی لانے کے ساتھ ساتھ صیہونی کالونیوں کی تعمیرمیں بھی اضافہ کر دے گا۔
بہرحال اس کارروائی نے ظاہر کر دیا کہ فلسطینی عوام نام نہاد خودمختار فلسطینی انتظامیہ سے وابستہ عہدیداروں کے برخلاف قابض دشمن کے ساتھ ساز باز مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کو جدا کرنے کے لیے صیہونی حکومت کے وحشیانہ اور نسل پرستانہ اقدامات اور فلسطین کی سرزمین پر صیہونی دیوار کی تعمیر، نہ تو انھیں جدوجہد جاری رکھنے اور نہ ہی قدس دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل سے روک سکتی ہے۔