جنوبی کوریا میں تھاڈ میزائل کی تنصیب پر چین کی تشویش
چین نے جنوبی کوریا میں امریکہ کے اینٹی میزائل سسٹم تھاڈ کی تنصیب پر اپنی تشویش کو چھپایا نہیں ہے۔
بیجنگ نے اسی بنا پر جنوبی کوریا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ علاقے بالخصوص ایشیا کے اس حصے کی سیکورٹی اور سیاسی تحفظات پر سنجیدگی سے توجہ دے-
جنوبی کوریا میں دس برس سے زیادہ عرصہ قبل امریکہ کے نیشنل میزائل ڈیفنس سسٹم کی تنصیب این ایم ڈی سے لے کر تھاڈ اینٹی میزائل سسٹم کی تنصیب تک ایشیاء دو طاقتوں امریکہ اور چین کے مابین مسلسل چپقلش کا مشاہدہ کر رہا ہے-
این ایم ڈی کی تنصیب نے اس وجہ سے چین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ اس دفاعی منصوبے میں جاپان بھی شامل ہے- امریکہ کے این ایم ڈی سسٹم کی تنصیب ایک بڑا دفاعی منصوبہ ہے کہ جو تائیوان کو اپنی سرپرستی میں لے لے گا اور یہ وہ موضوع ہے کہ جس میں جاپان پوری دلچسپی سے شامل ہوا ہے-
واضح ہے کہ چین امریکہ کے این ایم ڈی سسٹم کی بابت کہ جو ایشیا میں چین کے وسیع اور بڑے مفادات ، اس کی ارضی سالمیت اور قومی اقتدار اعلی کو ہدف بنائے ہوئے ہے ، سخت ناراض ہے-
اب نوبت جنوبی کوریا میں امریکہ کے تھاڈ میزائل سسٹم کی تنصیب تک پہنچ گئی ہے-
توقع یہ تھی کہ جنوبی کوریا کے وزیر اعظم اپنے حالیہ دورہ چین میں اس ملک کے حکام سے اپنی گفتگو میں مطمئن ہو جائیں گے ، وہ علاقائی تحفظات اور پورے ایشیاء میں چین کے مفادات پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز رکھیں گے اور یہ تسلیم کرلیں گے کہ امریکہ کے ساتھ یکجہتی اور اس کے مکمل اتحادی میں تبدیل ہونے سے چین کے احتجاج اورغم و غصے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے-
بیجنگ میں چین کے حکام نے جنوبی کوریا کے وزیراعظم ہوانگ کیو آہن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سئول کو چاہئے کہ سیکورٹی اور جیئوپولیٹیکل مسائل میں چین کی تشویش کو سنجیدگی سے لے اور تھاڈ اینٹی میزائل سسٹم کی تنصیب کا بھی جائزہ لے-
اس میزائلی سسٹم کی لمبی دوری تک مار کرنے کی صلاحیت چین کی تشویش کا باعث بنی ہے کیونکہ تھاڈ ممکن ہے چینی سرزمین کو بھی نشانہ بنائے-
اس میزائل سسٹم کی تنصیب کے لئے امریکہ اور جنوبی کوریا ، شمالی کوریا کی مسلسل ایٹمی سرگرمیوں اور میزائلی تجربات کو بہانہ بناتے ہیں-
جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شمالی کوریا پر پابندی عائد کرنے اور اسے تنبیہ کرنے پر مبنی ذمہ داری پرعمل کیا ہے لیکن امریکہ ، ہمیشہ کی طرح اپنے داخلی قانون کے تحت شمالی کوریا پر پابندی عائد کرنے اور خاص اقدامات کرنے کے در پے ہے تاکہ اس طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دائرہ کار سے باہر اقدام انجام دے-
آسان لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اقدام پر ہی اکتفا نہیں کی ہے اسی لئے شمالی کوریا کو تنبیہ کرنے پر اتر آیا ہے -
درایں اثنا چین نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ ہے شمالی کوریا کے خلاف اپنی پابندیوں کے نفاذ کو قانونی اور بین الاقوامی برادری سے ہماہنگ اقدام قرار دیا ہے-
اس طرح کے اقدامات کا منطقی اور سیاسی نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ اسی حد تک اکتفا کرے اور اس سے آگے نہ بڑھے-
امریکہ پوری سنجیدگی سے جنوبی کوریا میں تھاڈ میزائل سسٹم نصب کرنے کے در پے ہے تاکہ حالات کے مطابق ایشیاء میں اسے اپنے سیاسی و سیکورٹی مقاصد کے لئے استعمال کرے-
لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں اعلان کیا کہ امریکہ ، ماضی سے زیادہ اس وقت اپنے سرحد پار مفادات کی جانب متوجہ ہے اور اس سلسلے میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گا-
بنا بر ایں امریکہ ، ایشیاء پر توجہ مرکوز کرنے کی اسٹریٹیجی اختیار کرنے پر تلا ہوا ہے کہ جس کا مقصد ایشیا میں چین کو کنٹرول کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے-
چین کے ساتھ روس نے بھی امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنوبی کوریا میں تھاڈ میزائل سسٹم کی تنصیب سے پسپائی اختیار کرے کیونکہ اس میزائل سسٹم کی تنصیب سے روس کی سیکورٹی متاثر ہوگی -
اس طرح کے حالات پیدا ہونے کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چین کی سیکورٹی روس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور ان دونوں ملکوں کا مشترکہ موقف، کچھ عرصے میں امریکہ کے ساتھ کھلی مقابلہ آرائی میں بدل سکتا ہے-