بنگلادیش میں سیاسی تناؤ جاری
بنگلادیش میں جماعت اسلامی کے لیڈروں کو پھانسی کی سزا دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
بنگلادیش میں جماعت اسلامی کے لیڈروں کو پھانسی کی سزادینے کا سلسلہ جاری ہے۔ بنگلادیش میں جنگی جرائم کا جائزہ لینے والی عدالت نے البدر گروہ کے مزید تین کمانڈروں کو پھانسی اور انیس سو اکہتر میں پانچ افراد کو جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ یہ افراد بنگلادیش کی سب سےبڑی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔
کچھ دنوں قبل جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمان نظامی کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ وہ انیس سو اکہتر میں البدر گروہ کے سربراہ تھے مطیع الرحمان نظامی پانچویں لیڈر ہیں جنہیں جنگی جرائم کے الزام میں سزائے موت دی گئی ہے۔ نظامی سے پہلے جماعت اسلامی کے تین لیڈروں اور بنگلادیش کی قوم پرست پارٹی کے ایک لیڈرکوانیس سواکہتر میں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کی جنگ میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزام میں سزائے موت دی گئی ہے۔
اعلان شدہ اعداد و شمار کے مطابق سنہ اکہتر میں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کی جنگ میں تقریبا تیس لاکھ افراد جاں بحق اور ایک کروڑ افراد آوارہ وطن ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے دوہزار دس میں جنگی جرائم کی عدالت قائم کرکے مخالف پارٹیوں منجملہ جماعت اسلامی کے لیڈروں پر جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے کے الزام میں مقدمے چلانے شروع کئے۔ اب تک یہ عدالت بارہ افراد کو پھانسی اور قید کی سزادے چکی ہے۔
بنگلادیش میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے جنگی عدالت قائم کئے جانے پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ عدالت عالمی معیارات کے تقاضے پوری نہیں کرتی۔ بنگلادیش میں حزب اختلاف نے جس میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے اپنے رہنماوں کے خلاف وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے جنگی جرائم کی عدالت تشکیل دئے جانے کو ایک طرح سے سیاسی انتقام اور مخالف پارٹیوں بالخصوص اسلامی پارٹیوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں قرار دیا۔
شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے جماعت اسلامی کو کالعدم قراردے کر عملی طور سے بنگلادیش میں اسلامی پارٹیوں کی سرگرمیوں پرپابندی لگادی ہے۔ دریں اثنا حکومت ڈھاکہ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ واجد جماعت اسلامی کے رہنماوں پر مقدمے چلا کر عملا اس پارٹی کو کمزور اور بدنام کرنے کے لئے قدم اٹھارہی ہیں۔
جماعت اسلامی اور بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی اس ملک کی دو بااثر اور بڑی پارٹیاں ہیں۔ بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء ہیں۔ حکومت ڈھاکہ نے جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر نیشنلسٹ پارٹی کو عملی طور سے کمزور کردیا ہے۔ یہ پارٹی اس قدر کمزور ہوگئی ہے کہ وہ اپنے حامیوں کو اکٹھا کرکے مظاہرے کرنے کے بھی قابل نہیں ہے یہ ایسے عالم میں ہے کہ ماضی میں بیگم خالدہ ضیاکی نیشنلسٹ پارٹی اور شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ ایک دوسرے کی حکومت کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے کرتی رہتی تھیں۔ لیکن اب جس چیز کو حزب اختلاف رعب و گھٹن کی فضا کا نام دیتے ہیں اس بات کا سبب بنی ہے کہ مخالف پارٹیاں ٹکڑے ہونے کی طرف بڑھتی جائیں۔
حکومت بنگلادیش کے مخالفین کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ واجد ملک کو سکیولر بنانے کی پالیسیوں پر گامزن ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ جہاں وہ اسلامی گروہوں کی سرگرمیوں کے خلاف سخت گیر رویہ اپنائے ہوئے ہیں وہاں سکیولر گروہوں اور اخبارات و جرائد کو اپنے افکارو نظریات اور منصوبوں کی ترویج کرنے کی آزادی دی رکھی ہے۔
بہر صورت بنگلادیش ایک اسلامی ملک ہے اور اس کے عوام کو توقع ہے کہ ان کی حکومت قومی اتحاد کو تقویت پہنچاتے ہوئے ایسے رجحانات کو اثر ورسوخ حاصل کرنے سے روکیں گی جو عوام کے دینی عقائد کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت اسلامی اور قومی گروہوں کو کمزورکرکےایسے گروہوں کے لئے زمین ہموار کررہی ہیں جو بنگلادیش کے عوام کے دینی عقائد کو نشانہ بنائیں گے۔