کابل میں دہشت گردانہ بم دھماکوں کے خفیہ پہلو
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے دھماکوں کی اس ملک کے اٹارنی جنرل کی جانب سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کے اعلان کے ایک دن بعد روشنی تحریک کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ افغان حکومت کی تحقیقاتی کمیٹی کے نتائج ان کے لئے قابل قبول نہیں ۔
روشنی تحریک کے دو رہنماؤں داود ناجی اور احمد بہزاد نے کابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ وہ اپنے مطالبات خصوصا اس تحریک کے سیکڑوں حامیوں کے جاں بحق اور زخمی ہونے کے بعد پیش کردہ مطالبات سے پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔ ناجی نے کہا کہ روشنی تحریک کے نزدیک کابل میں ہونے والے حالیہ دھماکوں میں افغان حکومت ملزم کی حیثیت رکھتی ہے اور ہم ان دھماکوں کے بارے میں بین الاقوامی تحقیقات کے خواہاں ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کے دن کابل کے دہمزنگ اسکوائر میں روشنی تحریک کے حامی مظاہرین کے درمیان یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے جن کے نتیجے میں دسیوں افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ افغانستان میں ہونے والے دوسرے دہشت گردانہ حملوں کے برخلاف کابل میں روشنی تحریک کے حامیوں کے درمیان ہونے والے دھماکوں کو سیاسی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔
روشنی تحریک کے رہنماؤں کے نزدیک افغانستان کی حکومت ان دھماکوں میں ملوث ہے ۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ افغان سیکورٹی حکام نے پہلے سے ہونے والی ہم آہنگی کے باوجود روشنی تحریک کے حامی مظاہرین کی سیکورٹی کے لئے ضروری اقدامات انجام نہیں دیئے تھے۔ روشنی تحریک نے یہاں تک کہا ہے کہ اس تحریک کی اپیل پر کئے جانے والے مظاہرے کے اردگرد کی عمارتوں میں مشکوک افراد کو بھی دیکھاگیا تھا۔ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ افغانستان میں قومی کمیشن کی جانب سے بامیان کی بجائے سالنگ سے بجلی کی لائنیں گزارنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر مبنی حتمی فیصلہ آنے کے پیش نظر روشنی تحریک کابل کے دہشت گردانہ دھماکوں کو اپنا احتجاج جاری رکھنے کے لئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہو۔
اس دہشت گردانہ حملے میں افغانستان کے سیکڑوں افراد اور روشنی تحریک کے حامیوں کا جاں بحق اور زخمی ہونا قابل مذمت ہے اور افغان صدر نے بھی عام سوگ کا اعلان کرتے ہوئے مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ لیکن ان دھماکوں سے سیاسی فائدہ اٹھائے جانے کا شبہ بھی پایا جاتا ہے۔
کابل میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ دھماکوں کا ایک اور خفیہ پہلو افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کے بیانات سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کابل شہر میں روشنی تحریک کے حامی مظاہرین کے درمیان دھماکے کرنے کا مقصد قبائلی اختلافات کو ہوا دینا ہے اور داعش کی جانب سے ان دھماکوں کی ذمےداری قبول کئے جانے کے باوجود ان دھماکوں کے خفیہ پہلووں کو منظرعام پر لایا جانا ضروری ہے۔ عبداللہ عبداللہ کے نزدیک ترکمانستان سے درآمد کی جانے والی بجلی کو سالنگ سے گزارنے کے خلاف بامیان کی ہزارہ برادری کے ہزاروں افراد کے اعتراض کے دوران ہونے والے یہ دھماکے ایک سوچی سمجھی سازش تھی جس کا مقصد افغانستان میں قبائلی اختلافات کو ہوا دینا ہے۔
افغانستان کے عوام کے درمیان دراڑ قبائلی اختلافات کا ایک اہم منفی نتیجہ ہے اور افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کے نزدیک اس سازش میں داخلی دشمنوں اور پٹھووں سے زیادہ غیر ملکی کردار نمایاں ہے۔ افغانستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں اور بدامنی کے واقعات کو عبداللہ عبداللہ کی جانب سے پاکستان سے منسوب کئے جانے کے پیش نظر ایسا لگتا ہےکہ کابل میں ہونے والے دھماکوں کی ذمےداری داعش کی جانب سے قبول کئے جانے کے باوجود عبداللہ عبداللہ نے اس ہولناک واقعے میں اسلام آباد کے ممکنہ کردار کا جائزہ لئے جانے پر تاکید کی ہے۔