دہشت گردی کے خلاف جنگ پرایران و پاکستان کی تاکید
ایران اور پاکستان نے ایک بیان جاری کر کے دوطرفہ تعلقات کے فروغ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں باہمی تعاون کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر تاکید کی
یہ بیان بدھ کو پاکستان کی قومی سلامتی کے امور میں وزیراعظم نواز شریف کے مشیرناصرخان جنجوعہ کے تین روزہ دورہ تہران کے اختتام پرجاری ہوا- ناصرخان جنجوعہ کا دورہ تہران، ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی کی دعوت پرانجام پایا تھا-
اس بیان کے ایک حصے میں آیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان نے باہمی قربت اور برادرانہ تعلقات پر تاکید کرتے ہوئے کہ جن کی جڑیں دونوں ملکوں کی مشترکہ تاریخ و ثقافت میں پیوست ہیں، تعلقات کو برقراراوراسے فروغ دینے پرتاکید کی ہے اورسرحدوں پر بدامنی پیدا کرنے اورعلاقے وعالم اسلام میں عدم استحکام پیدا کرنے کا مقابلہ کرنے کے لئے موثر گفتگو کا ڈھانچہ تیار کرنے کو اہمیت کا حامل قرار دیا-
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں ملک، باہمی سیکورٹی مسائل اور مشترکہ سرحدی امور کو منظم کرنے اور مشترکہ کمیشنوں اور کمیٹیوں کی شکل میں تعلقات کو فروغ دینے اور اس کی افادیت بڑھانے کو اہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں اور مذاکرات جاری رکھنے پر تاکید کرتے ہیں-
دہشت گردی اور انتہاپسند گروہوں کے خلاف جد وجہد کے لئے تعاون، علاقے کی اہم ترین ترجیحات میں ہے- اس تعاون کا مقصد علاقے میں امن و استحکام کو مضبوط بنانا اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنا ہونا چاہئے-
دہشت گردی جوآج داعش کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے اورداعش عالم اسلام میں تفرقہ ڈالنے والا ایک پست اورگمراہ گروہ ہے اس کی جڑیں اس سے کہیں زیادہ گہری ہیں جو داعش کے ہاتھوں انجام پا رہی ہے-
داعش درحقیقت ان غلطیوں اور رویوں کا نتیجہ ہے کہ جس کی بنیاد علاقے میں برسوں پہلے رکھی جا چکی تھی- بہت سے شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب سمیت علاقے کے کچھ ممالک اغیار کے ساتھ مل کر داعش اور دوسرے لفظوں میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کی اپنے مقاصد کے حصول کے وسیلے کے طور پرحمایت کرتے ہیں- یہ سازش اسلامی ممالک کے وجود اور اتحاد کو نشانہ بنائے ہوئے ہے کہ جو دشمنان اسلام کی جانب سے علاقے کو تقسیم کرنے کا اسٹریٹیجک ہدف شمار ہوتا ہے-
ایران کو اپنی مشرقی سرحدوں کی جانب سے دہشت گردانہ خطرات کا سامنا ہے - اسلامی جمہوریہ ایران نے البتہ اپنے خلاف ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کا جواب دیا ہے اور بعض پڑوسی ممالک کی جانب سے ایران میں دراندازی کرنے والے دہشت گردگروہوں اور شرپسندوں پرکاری ضربیں لگائی ہیں-
واضح ہے کہ ان گروہوں کو امریکہ اور اسرائیل سمیت بیرونی ممالک کی حمایت حاصل ہے- لیکن دہشت گرد، صرف کسی ایک ملک کے خلاف کارروائیاں نہیں کرتے بلکہ آج وہ پورے علاقے اور دنیا کے لئے خطرہ بن گئے ہیں-
پاکستان ، افغانستان ، عراق ، ترکی بہت سے افریقی و یورپی ممالک حتی امریکہ بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے- گذشتہ چند دنوں کے دوران علاقے میں رونما ہونے والے واقعات من جملہ افغانستان کے دارالحکومت کابل ، عراق کے شہر کاظمین ، شام کے شہر قامشلی اورفرانس میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کہ جن میں سیکڑوں بے گناہ انسان ہلاک اور زخمی ہوئے ، دہشت گردی کے خطرے کے مختلف پہلؤوں کو ظاہر کرتے ہیں-
اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا تاکید کی ہے کہ علاقے میں دہشت گردی کے بحران پرقابو پانے کے لئے اس کی جڑوں کو جو کہ انتہاپسندانہ تکفیری و وہابی نظریات میں پیوست ہیں اور جسے بیجا وغلط طور پردنیا میں اصلی اسلام کےعنوان سے پیش کیا گیا، اکھاڑ پھینکا جائے اور بھرپورعالمی عزم و ارادے سے دہشت گرد گروہوں کی حمایت اوراسے ملنے والے فنڈ اوراسلحے کی فراہمی کے راستوں کو بند کیا جائے -