ناوابستہ تحریک کے سترہویں اجلاس کا ونزوئلا میں آغاز
ناوابستہ تحریک کی سربراہی، ایران سے ونزوئلا کو منتقل کرنے کے ساتھ ہی اس تحریک کا سترہواں اجلاس شروع ہوگیا -
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کی تقریر سے ، ناوابستہ تحریک کا سترہواں سربراہی اجلاس ونزوئیلا کے جزیرے مارگاریٹا میں شروع ہوا ہے-
موصولہ رپورٹ کے مطابق صدر مملکت نے اس اجلاس میں اس تنظیم میں ایران کے چار سالہ دور صدارت کی رپورٹ پیش کی اور ناوابستہ تحریک کے رکن ملکوں کی ہم آہنگی اور تعاون کو مضبوط بنانے اور اہم ترین علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں تہران کا نقطۂ نظر بیان کیا۔ صدر مملکت حسن روحانی نے اپنی تقریر میں تحریک کی گنجائشوں اور توقعات کا ذکر کرتے ہوئے دو اہم نکات کا ذکر کیا- ڈاکٹر روحانی کی تقریر میں پہلا نکتہ تحریک کی صلاحیتوں اور گنجائشوں کو بیان کرنا ہے، لیکن انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا تحریک اپنے بنیادی مقاصد کو حاصل کرسکتی ہے ؟ یا یہ کہ ابھی بھی اس تحریک پر کئی آوازوں کے سائے منڈ لا رہے ہیں اور یہ تحریک حقیقی معنوں میں اپنی امنگوں اور اہداف کو حاصل نہیں کرسکی ہے-
لیکن دوسرا نکتہ کہ جس کی جانب ڈاکٹر روحانی نے اشارہ کیا یہ ہے کہ ناوابستہ تحریک کی پوزیشن اور اس کا کردار ایک ایسے مجموعے کے عنوان سے ہے کہ جس میں اقوام متحدہ کے تقریبا دوتہائی اراکین شامل ہیں اور اصولی طور پر یہ تحریک آج کی دنیا کو درپیش چیلنجوں کے مقابلے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے لیکن ابھی تک یہ تحریک اپنا صحیح کردار ادا نہیں کرسکی ہے-
ناوابستہ تحریک کو ، نظریاتی طور پر اور اپنے اصول و اہداف کی بنیاد پر کچھ اس طرح سے مرتب و منظم کیا گیا ہے کہ جس پر عمل کرنے اور پابند رہنے سے ، عالمی سطح پر پائیدار ترقی اور امن و سلامتی کا قیام عمل میں آسکتا ہے -
جیسا کہ ڈاکٹر روحانی نے کہا ہے کہ ان اصولوں کی پیروی کے ذریعے بہترین صورت میں بہت سی مشکلات اور بنیادی چیلنجوں اور موجودہ بحرانوں کو حل کیا جا سکتا ہے-
لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ ایسے اقدامات انجام دیئے جائیں جو ناوابستہ تحریک کی روح سے مکمل مطابقت رکھتے ہوں اور ان اقدامات کا بنیادی اصولوں پر آغاز ہونا چاہئے -
حالیہ برسوں میں شام ، یمن ، عراق اور لیبیا کے عوام کے ساتھ بہت ناخوشگوار واقعات پیش آئے ہیں- یہ وہ ممالک ہیں جو ناوابستہ تحریک میں شامل ہیں جبکہ اس تحریک کو، بڑی طاقتوں کی جانب سے اقوام عالم پر مسلط کئے جانے والے مسائل کے مقابلے میں اپنی ذمہ داریاں قبول نہ کرنے کا سامنا ہے-
بڑی طاقتوں نے نہ صرف ان بحرانوں اور مسائل و مشکلات کو حل کرنے میں کوئی مدد نہیں کی ہے بلکہ ان بحرانوں کو وجود میں لانے اور ان کو ہوا دینے نیز تشدد، قتل عام ، جنگ اور لاکھوں افراد کی دربدری میں بھی کردار ادا کیا ہے- القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو بدستور ، دہشت گردی سے مقابلے کے دعویدار ملکوں کی جانب سے مالی اور اسلحہ جاتی حمایت و مدد حاصل ہے اور عالمی برادری نے غاصبانہ قبضے ختم کرنے میں ذرہ برابر کامیابی حاصل نہیں کی ہے-
تحریک نے اس سے قبل دو قطبی نظام اور سرد جنگ کے دور میں مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا لیکن اس وقت درپیش چیلنج ، ماضی کے چیلنجوں سے کافی زیادہ مختلف ہیں - اس وقت جو چیلنج درپیش ہیں ان میں انتہا پسندی ، دہشت گردی اور غاصبانہ قبضے نیز عالمی سطح پر پائی جانے والی بد انتظامی و بدحالی ہے- جبکہ ناوابستہ تحریک نے ان بحرانوں پر قابو پانے کے لئے اپنی گنجائشوں سے استفادہ کیا ہے-
ناوابستہ تحریک کا سترہواں اجلاس ایسی حالت میں شروع ہو رہا ہے کہ ناوابستہ تحریک کے ارکان کو آج ہر دور سے زیادہ اتحاد و یکجہتی، ہم فکری اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔
ایران نے گذشتہ چاربرسوں میں کوشش کی کہ تحریک کو جمود اور بے عملی سے باہر نکالے اور کسی حد تک اس سلسلے میں ایران نے کامیاب عمل کیا ہے لیکن تحریک نے سولہویں دور میں جن چیلنجوں کا سامنا کیا وہ ماضی کے تجربات سے مختلف تھا-
اسلامی جمہوریہ ایران نے ناوابستہ تحریک پر چار سالہ دور صدارت کی مدت ختم ہونے کے بعد، اس عظیم ذمہ داری کو ونزوئلا کے سپرد کردیا ہے-
اس منتقلی سے ایک دور کا اختتام ہوا تو ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے- ایران کا خیال ہے کہ ناوابستہ تحریک ، اقوام متحدہ کے دائرے میں اپنے افکار ونظریات اور اصولوں میں پیشرفت کے لئے نمایاں صلاحیتوں کی حامل ہے- ان ہی ضرورتوں پر تاکید کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے ایک بار پھر ناوابستہ تحریک کے تمام ممبر ملکوں خاص طور پر ونزوئلا کے ساتھ ، کہ جسے ہفتے کے روز اس تحریک کی صدارت حاصل ہوئی ہے، اس تحریک کے اہداف کو آگے برھانے پر زور دیاہے -