Dec ۰۱, ۲۰۱۶ ۱۷:۳۲ Asia/Tehran
  • لیبیا کابحران روز بروز وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔

لیبیا کے بگڑتے ہوئے حالات پر اس ملک کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے تشویش کا اعلان کیا ہے۔

 

لیبیا میں سیاسی بحران جاری ہے جس پرلیبیاکے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مارٹن کوبلر نے لیبیا سے مہاجرت کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک لیبیا کی حکومت کا اقتدار قائم نہیں ہوتا انسانی اسمگلنگ جاری رہے گی۔ لیبیا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مارٹن کوبلر کے یہ بیانات ایسے عالم میں سامنے آرہے ہیں کہ لیبیا کے امور میں افریقی یونین کی اعلی کمیٹی نے گذشتہ ماہ ایک بیان جاری کرکے اعلان کیا تھا کہ لیبیا میں سیاسی عمل تعطل کا شکار ہوچکا ہے اور اس سے سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کو ہورہا ہے۔

لیبیا میں جب سے دوہزار گیارہ میں ڈکٹیٹر معمر قذافی کی حکومت سرنگوں ہوئی ہے لیبیا داخلی بحران اور افراتفری کا شکار ہے سیاسی کشیدگی اور عسکریت پسند گروہوں کی سرگرمیاں اس بات کا سبب بنی ہیں کہ لیبیا نہایت شدید بحران کا شکار ہوجائے۔ تخمینوں کے مطابق ایک ہزار سات سوسے زیادہ عسکریت پسند گروہ لیبیا میں سرگرم عمل ہیں۔ سیاسی کشیدگیوں اور بدامنی کی وجہ سے لیبیا میں وسیع پیمانے پر انسانی بحران معرض وجود میں آگیا ہے اور وہ روز بروز پھیلتا ہی جارہا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے شہری غربت اور غذائی اور طبی امداد کے محتاج ہو گئے ہیں جبکہ ملک میں بدامنی اور عدم استحکام کی وجہ سے متاثرہ افراد کو امداد پہنچانے کا امکان بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ سیاسی کشیدگی اور بحران سے تکفیری دہشتگرد گروہوں جیسے داعش کوسرگرم  عمل ہونے کا موقع مل گیا ہے۔ اگرچہ گذشتہ کچھ مہینوں میں لیبیا کی فوج نے داعش کے زیر قبضہ بہت سے علاقوں کو آزاد کرالیا ہے لیکن اب بھی کچھ علاقوں میں داعش دہشتگرد گروہ سرگرم عمل ہے۔  داعش دہشتگرد گروہ نے لیبیا کو علاقے کے ہمسایہ  ملکوں جیسے تیونس وغیرہ میں دہشتگردی پھیلانے اپنی صفوں میں نئے افراد شامل کرنے کے لئے اپنا ہیڈ کواٹر بنا لیا ہے۔ لیبیا میں اسمگلنگ کے گروہ بالخصوص انسانی اسمگلنگ کے گروہ بھی شدید تشویش کا باعث ہیں۔ لیبیا نہ صرف دیگر افریقی ملکوں کے تارکین وطن کے لئے ٹرانزیٹ روٹ بن گیا ہے بلکہ بہت سے تارکین وطن لیبیا ہی میں رہ جاتے ہیں اور عسکریت پسند گروہوں کے جھوٹے وعدوں میں آکر ان میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یاد رہے لیبیا کو ٹرانزیٹ روٹ بنانے والے تارکین وطن اپنے ملکوں میں جنگ و بری معاشی حالت کی بنا پر لیبیا آکر دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ بہت سے تاریکین وطن کو تخریب کار گروہ رشوت اینٹھنےکے لئے متعدد مرتبہ اغوا کرلیتے ہیں اور اپنی عارضی جیلوں میں انہیں ایذائیں پہنچاتے ہیں اور زدوکوب کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کو رقم مہیا ہونے تک لیبر کیمپ بھیج دیا جاتا ہے یا پھر جسم فروشی پر مجبور کردیا جاتا ہے۔واضح رہے لیبیا سے نکلنے کی راہوں پر عسکریت پسندوں کا قبضہ ہے اور لیبیا کی بہت سی سرحدیں بند ہیں۔فرارکا واحد راستہ اسمگلروں کی پلاسیٹیک کی کشتیاں ہیں جن سے سفر کرنے والے دسیوں تارکین وطن بحیرہ روم میں ڈوب کر مر جاتے ہیں۔ اگرچہ لیبیا میں قومی اتحاد کی حکومت کی تشکیل سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ لیبیا کے سیاسی حالات تبدیل ہونگے لیکن اندرونی سطح پر اس حکومت کو تسلیم نہ کئےجانے پر یہ حکومت اپنے ملک میں امن و امان قائم نہ کرسکی اور عملی طور سے سیاسی سطح پر تعطل باقی ہے اور ملک کے حالات بد سے بدتر ہوگئے ہیں۔   

 

ٹیگس