روس کی نئی خارجہ پالیسی
روس کے صدر ولادیمیرپوتین نے اپنے ملک کی نئی خارجہ پالیسی پر دستخط کردئے ہیں۔
روس کے صدر ولادیمیرپوتین نے اپنے ملک کی نئی خارجہ پالیسی پر دستخط کردئے ہیں۔ روس کی نئی خارجہ پالیسی کے ڈاکٹرائن میں شام کے مسئلے کے حل کئے جانے اور شام کی ارضی سالمیت کے تحفظ نیز وسیع البنیاد عالمی اتحاد قائم کرکے دہشتگردی کے مقابلے پر زور دیا گیاہے۔ اس ڈاکٹرائن میں ماسکو نے تاکید کی ہے کہ وہ مشرق وسطی کے بحرانوں کو حل کرنے کے لئے بغیر بیرونی مداخلت کے سیاسی راہ ہائے حل کی حمایت کر تا ہے۔اس ڈاکٹرائن کے مطابق بین الاقوامی تعلقات کو منظم کرنے والے ادارے کی حیثیت سے اقوام متحدہ کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ اس میں علاقائی جنگوں میں خطروں میں اضافے کے باوجود ایٹمی جنگ کے خطرے کا، ضعیف احتمال دیا گیا ہے۔ روس کی نئی خارجہ پالیسی کا ایک اصول، مغرب بالخصوص امریکہ کے ہر طرح کے خطروں کا بھرپور طرح سے مقابلہ کرنا ہے۔اس دستاویز میں یہ تاکید کی گئی ہے کہ روس پر روک لگانے اور دباؤ ڈالنے کی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پالیسیوں سے علاقے اور عالمی امن و ثبات کو خطرے لاحق ہوگئے ہیں۔ ماسکو نے اپنی نئی خارجہ پالیسی کی ڈاکٹرائن میں کہا ہے کہ وہ اپنے خلاف امریکہ کے دباؤ کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا اور اس کے دشمنانہ اقدامات کا ٹھوس جواب دینے کا مکمل حق رکھتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس میں کہا گیا ہے کہ روس یورپی یونین کا ایک اہم فریق ہے اور دونوں فریقوں کے درمیان بھرپور اور مستحکم تعاون کا خواہاں ہے۔
روس کی جانب سے خارجہ پالیسی کی نئی ڈاکٹرائن کا اعلان کرنا اور روسی صدر کا اس پر دستخط کردینا بین الاقوامی تعلقات میں نئے تقاضوں کے تعلق سے روس کی توجہ کی نشاندھی کرتا ہے۔ در حقیقت حالیہ برسوں میں مشرقی یورپ اور مشرق وسطی میں بڑے واقعات پیش آئے ہیں جن کی وجہ سے روس اور امریکہ ایک دوسرے کے مقابلے میں آگئے ہیں، البتہ ان میں ایک بڑا بحران یوکرین کا بحران ہے۔ اس وقت امریکہ کی زیر قیادت اور اسکی مدد سے نیٹو بحیرہ اسود اور بالٹیک کے علاقے میں روس سے بھرپور مقابلہ کررہا ہے لھذا روس کی خارجہ پالیسی کی نئی ڈاکٹرائن میں اس مسئلے پر بنیادی مسئلے کی حیثیت سے مکمل طرح سے توجہ دی گئی ہے۔ روس کی نظر میں اس صورتحال کا جاری رہنا عالمی امن اور روس اور مغرب کے درمیان اسٹراٹجیک امن واستحکام کے نقصان میں ہے۔ اس دستاویز میں روس نے امریکہ کے خلاف ٹھوس موقف اپنایا ہے لیکن یورپی یونین سے حتی الامکان اپنے تعلقات محفوظ رکھنے اور ان میں دوبارہ بہتری لانے کی کوشش کی ہے۔
واضح رہے دوہزار گیارہ میں جب سے شام میں بدامنی شروع ہوئی ہے روس نے دہشتگردوں کے مقابلے میں شام کی حکومت کی مدد کی ہے اور دسمبر دوہزار پندرہ میں غیر متوقع طور پر شام کی حکومت کی درخواست پر شام میں اپنی فوجیں بھیجیں اور دہشتگردوں کے خلاف میزائیلی اور فضائی حملے شروع کئے ۔ اس اقدام سے جس کی مغرب کو ہرگز توقع نہیں تھی توازن کا پلڑا شام اور اسکے اتحادیوں کی جانب سے جھک گیا اور اس کے نتیجے میں مشرقی یورپ کے علاوہ اب شام بھی مغرب بالخصوص امریکہ اور روس کی صف آرائی کا میدان بن چکا ہے۔ ان مسائل کے پیش نظر روس نے اپنی خارجہ پالیسی کی نئی دستاویز میں مغرب کے مخاصمانہ اقدامات کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لئے اپنے حق پر تاکید کی ہے۔ روس کی خارجہ پالیسی کی نئی دستاویز میں ایک بات جس پر تاکید کی گئی ہے وہ اقوام متحدہ کا کردار اور یکطرفہ اقدامات سے پرہیز کرنا ہے۔ دراصل مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں افراتفری اور بدامنی کی بنیادی وجہ امریکہ کے یکطرفہ اور خود سرانہ اقدامات ہیں۔جو امریکہ نے دوہزار ایک میں گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد دہشتگردی سے مقابلے کے بہانے شروع کئے تھے۔ یہ اقدامات امریکہ نے عراق اور افغانستان پر حملوں سے شروع کئے تھے۔ ان اقدامات سے نہ صرف دہشتگردی ختم ہوئی نہیں ہوئی بلکہ تکفیری دہشتگرد گروہوں جیسے داعش اور جبھۃ النصرۃ معرض وجود میں آئے ہیں۔ ان دہشتگرد گروہوں نےدسیوں ہزار لوگوں کا قتل عام کرنے کے علاوہ لاکھوں لوگوں کو آوارہ وطن بھی کیا ہے۔ ان ہی گروہوں کی دہشتگردی کے نتیجے میں لاکھوں لوگ یورپ میں پناہ لینے کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل پڑے ہیں جو یورپ کے لئے ایک بڑے چیلنج میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ مجموعی طور سے روس کی نئی خارجہ پالیسی کی ڈاکٹرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روس نے علاقے اور عالمی مسائل کے تعلق سے نئے نظریات قائم کئے ہیں۔ دوسری طرف سے یہ ڈاکٹرائن ہمیں بتاتی ہے کہ موجودہ بحرانوں اور مواقع کے پیش نظر روس کس طرح کا بین الاقوامی نظام چاہتا ہے، ایسا نظام جو چند جانبہ اور اقوام متحدہ کے کردار پر محیط ہو۔