امریکہ افغانستان میں ناکام رہا
امریکہ کے صدر باراک اوباما نے اعتراف کرلیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں طالبان سے مقابلہ کرنے میں ناکام رہا ہے
امریکہ کے صدر باراک اوباما نے اعتراف کرلیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں طالبان سے مقابلہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ بارک اوباما نے فلوریڈا میں فضائی ایربیس میک ڈیل میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ افغانستان کو طالبان کے وجود سے پاک کرنے کی توانائی نہیں رکھتا اورنہ ہی جنگ و تشدد کو ختم کرنے ہی کی توانائی رکھتا ہے۔ گیارہ ستمبر دوہزار ایک میں نیوریارک میں ٹوین ٹاورز پر حملوں کے بعد امریکہ نے القاعدہ کو ان حملوں کا ذمہ دار قراردے کر افغانستان میں دہشتگردی، طالبان اور افغانستان میں امن و استحکام لانے کےبہانے افغانستان پر حملے کرکے قبضہ کرلیا تھا۔
اس وقت سے ا فغانستان پر امریکہ کا فوجی قبضہ جاری ہے۔ اس وقت بھی افغانستان میں امریکہ کے دس ہزار فوجی تعینات ہیں لیکن بدامنی بھی بدستور موجود ہے۔ امریکہ کی لشکر کشی کے زمانے سے اب تک افغانستان میں ایک لاکھ پچاس ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جن میں دوہزار پانچ سو امریکی فوجی شامل ہیں۔ افغانستان پر امریکہ کا قبضہ ہوئے تقریبا پندرہ برس ہورہے ہیں۔ اس دوران ہزاروں افغان باشندے جان بحق اور زخمی ہوئے ہیں اور ملک کی بنیادی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا ہے اور لاکھوں آوارہ وطن ہوئے ہیں۔ ادھر امریکی طیاروں کی بمباری میں افغانستان کی شہری تنصیبات کا تباہ ہونا بھی ملت افغان کے لئے نہایت دردناک امر ہے جس سے افغان عوام کی غربت و افلاس میں اضافہ ہوا ہے جبکہ طالبان بدستور سرگرم عمل ہیں۔ یہاں تک داعش کے تکفیری گروہ نے بھی افغانستان میں اپنی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ یہ مسئلہ اس وجہ سے اہمیت کا حامل ہے کہ امریکہ کے منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے باراک اوباما اور ان کی سابق وزیر خارجہ کو داعش کو جنم دینے والوں مں شمار کیا ہے۔
القاعدہ اور طالبان تنظیموں کو افغانستان پر سابق سوویت یونین کے قبضے کے دوران امریکہ کی جاسوسی کی تنظیم سی آئی آے نے استعمال کیا تھا لیکن سابق سوویت یونین کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد یہ گروہ اپنے ان داتا امریکہ کے ہی مخالف ہوگئے اور دوہزار ایک میں جبکہ امریکی صدر جارج بش نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو یہ سب کو معلوم تھا کہ ان کی مراد اس جنگ سے القاعدہ کی دہشتگردی کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ وہ اس بہانے دوسرے ملکوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔اسی وجہ سے امریکہ نے کیمیاوی ہتھیاروں کی موجودگی کے بہانے عراق پر حملہ کردیا لیکن اس بعد بھی عراق سے کسی طرح کے کیمیاوی ہتھیار بر آمد نہ ہوسکے۔
افغانستان امریکہ کی رقیب بڑی طاقتوں جیسے روس، ایران اور چین کی سرحدوں کے قریب ہونے نیز تیل کی ٹرانزیٹ روٹ میں ہونے کی بنا پر واشنگٹن کی توجہ کا مرکز ہے اور اسی وجہ سے امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا۔ امریکہ نے افغانستان میں سابق سوویت یونین کی سرخ فوج کی شکست فاش کا تجربہ بھلادیا اور اس سے عبرت نہیں پکڑی۔امریکی صدر کا یہ کہنا کہ القاعدہ و طالبان کو نابود کرنے میں امریکہ کی شکست درحقیقت اس بات کا اعتراف ہے کہ امریکہ اکیلا فوجی راستوں سے دہشتگردی کی بیخ کنی نہیں کرسکتا لھذا وہ اپنے لئے نیک نامی چھوڑنا چاہتا ہے لیکن اوباما نے افغان عوام کے قتل عام میں صدر بش کی مجرمانہ کاروائیوں میں شریک ہوکر، افغان قوم پر طرح طرح کے دباؤ ڈال کر واشنگٹن کابل سکیورٹی معاہدے پر دستخط لئے ہیں اور اسطرح دس ہزار امریکی فوجیوں کے افغانستان میں باقی رہنے کا راستہ ہموار کیا ہے۔اوباما نے افغانستان میں طالبان کی نابودی میں ناتوان ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ ماضی کی بڑی طاقتوں نے دنیا کے مختلف علاقوں پر حد سے زیادہ لشکر کشی کرکے اپنی شکست کے اسباب فراہم کئے تھے۔ اوباما نے ان باتوں سے چاہتے ہیں کہ اپنے ملک کو سقوط سے نجات دیں۔ البتہ بہت سے دانشوروں نے بھی یہ انتباہ دیا ہے کہ امریکہ اپنی جنگ پسندانہ پالیسیوں کے نتیجے میں ختم ہوجائے گا۔