Jan ۱۱, ۲۰۱۷ ۱۴:۵۶ Asia/Tehran
  • سعودی عرب کے نام نہاد اتحاد کے کمانڈر کے طور پر راحیل شریف کی تقرری کے خلاف اعتراضات کا سلسلہ جاری

سعودی عرب کے نام نہاد دہشت گردی مخالف اتحاد کے کمانڈر کا عہدہ قبول کئے جانے کے خلاف پاکستان کے سیاسی حلقوں اور ریٹائرڈ فوجی افسروں کے اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستان کی سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے اس سلسلے میں اس ملک کے وزیر دفاع خواجہ آصف سے وضاحت طلب کر لی ہے۔ رضا ربانی نے پاکستان کے وزیر انصاف سے بھی کہا ہےکہ وہ بدھ کے دن سینیٹ کے کھلے اجلاس میں حاضر ہو کر اس کی وضاحت کریں۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے سعودی عرب کے نام نہاد دہشت گردی مخالف اتحاد کے کمانڈر کا عہدہ قبول کئے جانے کے بعد پاکستانی عوام، اراکین پارلیمنٹ اور فوجی، سیاسی اور مذہبی شخصیات میں غم وغصہ پھیل گیا ہے۔

پاکستان کی فوج کے سابق جنرلوں اسلم بیگ اورطلعت مسعود نے راحیل شہریف کے اقدام کو ایک بڑی غلطی سے تعبیر کیا ہے۔ اور کہا ہےکہ یہ تقرری پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس سے عالم اسلام میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہوگی۔  راحیل شریف نے سعودی عرب کے نام نہاد دہشت گردی مخالف اتحاد کے کمانڈرکا عہدہ ایسی حالت میں قبول کیا ہےکہ اپریل سنہ 2015 میں پاکستان کی قومی پارلیمنٹ اور سینیٹ کی قراردادوں کی رو سے اس ملک کی حکومت کو اس اتحاد میں شامل ہونے اوراس کے ساتھ تعاون کرنے سے منع کیا گیا تھا۔

یہی وجہ ہےکہ راحیل شریف کے اقدام کو اس ملک میں وسیع تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان کے بہت سے ذرائع ابلاغ، مبصرین حتی اعلی حکام منجملہ سینیٹ کے چیئرمین نے اس اقدام پر شدید تنقید کی ہے اور اس مسئلے کی شفافیت کا مطالبہ کیا ہے۔ اس قرارداد کے علاوہ قانون کے مطابق بھی پاکستان کا کوئی بھی فوجی افسر ریٹائر ہونے کے بعد دو سال تک حتی کہ حکومت کی جانب سے ملنے والے خصوصی اختیارات ملنے کی صورت  میں بھی کوئی فوجی اورسرکاری عہدہ قبول کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے۔ بنابریں پاکستان کے مختلف حلقوں میں اس وقت یہ سوال اٹھایا جا رہا ہےکہ راحیل شریف اور پاکستانی حکومت نے سعودی عرب سے کونسی مراعات حاصل کرنے کے لئے اس ملک کے فوجی اتحاد میں شامل نہ ہونے سے متعلق پارلیمنٹ اور سینیٹ کی قرارداد اور ملکی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسلام آباد کی حکومت نے شروع میں اسے راحیل شریف کا نجی فیصلہ قرار دیا تھا۔ مخالفتوں میں کمی لانے کے لئے پاکستان کے وزیر خزانہ نے بھی کہا تھاکہ اسلام آباد کو توقع ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اس اتحاد میں اپنا کام شروع کرنے سے قبل پاکستان کے آئین اور قانون پر مکمل طور پر عمل کریں گے۔

پاکستان کےسابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے سعودی عرب کے نام نہاد دہشت گردی مخالف اتحاد کے کمانڈر کا عہدہ قبول کرنے کے خلاف اعتراضات میں شدت پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب بجائے خود خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا حامی ہے۔ سعودی عرب میں پروان چڑھنے والی وہابیت بدستور حتی پاکستان کے اندر دہشت گردی اور تشدد کے پھیلنے کا باعث بنی ہوئی ہے۔ سعودی عرب کو جنگ یمن میں شدید شکست کا سامنا ہے اور کوئی بھی ملک یمن کے دلدل میں داخل ہونے اور دہشت گردانہ اقدامات میں سعودی حکام کا شریک جرم بننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ پاکستان کے مختلف حلقوں کا خیال ہےکہ راحیل شریف کا اقدام پاکستان کو یمن ، شام اور عراق میں جاری سعودی عرب کے جرائم میں برابر کا شریک بنا دے گا۔

یہی وجہ ہے کہ راحیل شریف کی جانب سے سعودی عرب کے نام نہاد دہشت گردی مخالف اتحاد کے کمانڈر کا عہدہ سنبھالنے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ راحیل شریف کے اقدام کی پاکستان کو بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی ۔ اس اقدام سے پاکستان اسلامی دنیا میں بدنام اورالگ تھلگ ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہےکہ حکمران پارٹی مسلم لیگ ن چونکہ یہ سمجھتی ہے کہ اس نے سنہ 2013 میں سعودی حکام کی مدد سے پاکستان میں اقتدار حاصل کیا اس لئے اس نے سعودی عرب کےنام نہاد دہشت گردی مخالف اتحاد کے لئے راحیل شریف کے کمانڈر بننے کے ساتھ اتفاق کر کے سعودی حکام کے احسان کا صلہ دینے کی کوشش کی ہے۔  

 

ٹیگس