فرانس کے وزیر خارجہ کا دورہ ریاض
فرانس کے وزیر خارجہ ژان مارک ایرو سعودی عرب کے دورے پر ریاض پہنچے ہیں۔فرانسیسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ ان کے وزیر خارجہ کا دورہ ریاض علاقے کے اہم ترین مسائل بالخصوص یمن، عراق اورلیبیا اور شام کے حالات کے بارے میں تبادلہ خیال کے مقصد سے انجام پارہا ہے۔
فرانس کے وزیر خارجہ ژان مارک ایرو سعودی عرب کے دورے پر ریاض پہنچے ہیں۔فرانسیسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ ان کے وزیر خارجہ کا دورہ ریاض علاقے کے اہم ترین مسائل بالخصوص یمن، عراق اورلیبیا اور شام کے حالات کے بارے میں تبادلہ خیال کے مقصد سے انجام پارہا ہے۔
ایسا لگتا ہےکہ ژان مارک ایرو کا دورہ ریاض علاقائی مسائل اور ساتھ ساتھ دو طرفہ مسائل بالخصوص ریاض اور پیرس کے درمیان فوجی، اقتصادی اور تجارتی نیز صعنتی مسائل پر غور کرنے کے لئے انجام پارہا ہے۔ پیریس نے ہمیشہ مشرق وسطی کے مسائل کے تعلق سے ریاض سے قریبی مواقف اپنائے ہیں، اسکی وجہ بھی واضح ہے، چونکہ سعودی عرب دنیا میں تیل برامد کرنے والا اور ہتھیار خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے لھذا فرانس کے حکام نے جب بھی سعودی حکام سے ملاقات کی ہے ایک دوسرے کے موقف کو نزدیک ظاہر کرکے ریاض کے ساتھ منافع بخش تجارتی اور فوجی معاہدے کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کے علاوہ فرانس نے پانچ جمع ایک کےساتھ ایران کے مذاکرات کے دوران جو مشترکہ جامع ایکشن پلان پر منتج ہوئے سب سے زیادہ سعودی عرب سے قریب موقف اپنائے تھے اور ایک برے پولیس والے کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی تھی تا کہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جاسکے۔
یہ مذاکرات ایران کے ایٹمی معاملے کو حل کرنے کے لئے انجام پائے تھے۔ البتہ ریاض کی ہمنوائی کرنے سے فرانس کومنافع بخش فوجی اور تجارتی معاہدوں کی صورت میں ثمر ملا ہے۔ فرانس کے حکام بالخصوص صدر اولاند جنہیں اپنی اقتصادی اور سیاسی ناکامیوں کی وجہ سے بہت کم مقبولیت حاصل ہے یہ امید کرتے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ منافع بخش فوجی اور صنعتی معاہدے کرکے فرانس کی معیشت میں رونق کا سبب بنیں گے اس کے علاوہ ان کے ان اقدامات سے فرانس میں بے روزگاروں کی تعداد میں کمی آئے گی اور سوشلسٹ پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔
جیسا کہ ہم نے کہا ہےکہ فرانس کے وزیر خارجہ کے دورہ ریاض کا ایک مقصدعلاقے کے مسائل بالخصوص شام کےبحران کے بارے میں سعودی حکام سے تبادلہ خیال کرنا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ فرانسیسی وزیر خارجہ کا دورہ ریاض قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شام کی حکومت اور اس کے مخالف گروہوں کے مذاکرات کے موقع پر انجام پایا ہے۔ ایسے مذاکرات جن کی داغ بیل ایران روس اور ترکی نے ڈالی ہے۔ یقینا ریاض کے لئے یہ بات ہرگز خوش آیند نہیں ہے کہ شام میں حالات استقامت کے محور کے حق میں تبدیل ہورہے ہیں لھذا سعودی عرب فرانس سمیت اپنے مغربی حلیفوں کے ساتھ مل کر تا حد امکان آستانہ مذاکرات پراور شام کے بحران کے سیاسی راہ حل کے لئے ضروری امور پر خواہ براہ راست طریقے سے یعنی ان مذاکرات میں شریک شام کے مخالف گروہوں کے توسط سے یا پھر اپنے مغربی دوستوں سے تبادلہ خیال کرکے منفی طرح سے اثر انداز ہونا چاہتا ہے۔