Mar ۰۱, ۲۰۱۷ ۱۶:۴۴ Asia/Tehran
  • افریقہ میں قحط و خشک سالی اور جنگ

براعظم افریقہ کے بہت سے ملکوں میں جنگ اور قحط نے عوام کو ترک وطن اور پرامن ملکوں اور علاقوں کی طرف کوچ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

ادھر بہت سے پناہ گزیں، پرامن علاقوں تک پہنچنے کے لئے شدید مشقت اور خطروں سے روبرو ہیں۔ لیبیا ان ملکوں میں سے ایک ہے جو افریقی پناہ گزینوں کا ٹرانزیٹ راستہ ہے یہاں سے لوگ یورپ جاتے ہیں۔ لیبیا ایک نہایت خطرناک گزر گاہ ہے جیسا کہ یونیسیف کی تازہ ترین رپورٹ میں آیا ہے کہ وہ عورتیں اور بچے جو غربت بھوک اور جنگ سے بچنے کے لئے یورپ پہنچنے کی غرض سے ہر طرح کا خطرہ مول لیتے ہیں انہیں لیبیا میں بھی نہایت سخت مسائل پیش آتے ہیں اور انہیں لیبیا میں جنسی تشدد، بھوک اور اذیت و آزار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق لیبیا میں پناہ گزینوں کو رکھنے کے مراکز پر مسلح گروہوں کا کنٹرول ہے جو مجرم گروہوں اور انسانی اسمگلروں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ یونیسیف کی ڈائریکٹر برائے مرکزی اور مشرقی یورپ افشین خان نے دنیا میں پناہ گزینوں کی تعداد میں کمی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ پناہ گزیں بچوں کو پناہ دینے کا مضبوط قانونی بندوبست کیا جانا چاہیے ۔ افشین خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کوئی اور آپشن نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی جان خطرے میں نہیں پڑنی چاہیے۔ بہت سے افریقی ممالک ایسے عالم میں جنگ، سیاسی بحران اور قحط و خشک سالی میں مبتلا ہیں کہ وہ مغرب بالخصوص امریکہ کی نئی سامراجی پالیسیوں کا شکار ہیں۔ افریقہ میں فرانس اور برطانیہ کئی صدیوں سے مداخلت کر رہے ہیں البتہ افریقی ملکوں میں آنے والے انقلابوں کی بنا پر بہت سے افریقی ممالک کو آزادی حاصل ہوگئی ہے لیکن بنیادی تنصیبات نہ ہونے کی وجہ سے اور امکانات کے فقدان کی وجہ سے ان میں اقتصادی، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے پسماندگی پائی جاتی ہے۔ اس کےعلاوہ بھی بہت سے مسائل موجود ہیں۔

دوسری طرف  بہت سے افریقی ممالک، عظیم قدرتی ذخائر اور ممتاز جغرافیائی پوزیشن کے حامل ہیں۔ لہذا سامراجی ممالک نے ایک بار پھر ان ملکوں کی دولت و ثروت کو لوٹنے کے لئے یہاں اختلافات کو ہوا دینا شروع کیا اور جنگ کے شعلے بھڑکا دیئے تاکہ مخالف گروہوں کی پس پشت حمایت کرکے ان ملکوں کے امور میں مداخلت کرسکیں۔ ان ملکوں میں مداخلت کرنے کا ایک اور بہانہ انسان دوستانہ امداد بھی ہے۔ ان پالیسیوں پر عمل کرنے کی وجہ سے بہت سے افریقی ملکوں میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں اور جنگ کی بنا پر بدامنی، جس میں انسانی بحران بھی شامل ہے، غذائی اشیاء اور ادویہ جات کی قلت نیز، ترک وطن پر مجبور ہونے اور پناہ گزینوں کے کیمپوں میں زندگی گزارنے جیسے مسائل دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان مسائل کے علاوہ بدامنی، دہشت گرد گروہوں کے فعال ہونے کا سبب بنی ہے، اس کے علاوہ انسانی اسمگلروں کے گروہ بھی تیزی سے کام کرنے لگتے ہیں۔ ان تمام مسائل سے دوچار ملک کی ایک مثال لیبیا ہے۔ موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ صورتحال اس بات کا سبب بنی ہے کہ بہت سی خواتین اور بچے انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جائیں اور بے پناہ مصائب کا شکار ہوجائیں۔

واضح رہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے بھی جو کہ یورپی اور امریکی ملکوں کی صنعتی سرگرمیوں کی بنا پر عمل میں آتی ہے افریقہ کے لئے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہے۔ جنگیں بھی جن کا سرچشمہ مغربی طاقتوں کی مداخلت ہے وسیع پیمانے پر زرعی زمینوں کی تباہی کی  وجہ بنی ہیں جن کے سبب کسان بڑی تعداد میں دیگر علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں قحط اور خشک سالی پیش آتی ہے جن میں سرفہرست صومالیہ اور جنوبی سوڈان ہیں۔ اس وقت قحط و خشکسالی اور مجبورا پناہ گزینی اختیار کرنا دو ایسے مسئلے ہیں جن سے دسیوں ہزار افریقی شہریوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے ۔ یہ صورتحال امریکہ اور دیگر مغربی سامراجی ملکوں کی مداخلت کا نتیجہ ہے جو دنیا کے بہت سے علاقوں میں دیکھی جا رہی ہے اور اس کی بھینٹ افریقہ کے آوارہ وطن اور بے پناہ لوگ چڑھ رہے ہیں جو بذات خود ایک بہت ہی ثروتمند براعظم ہے۔

 

 

 

 

ٹیگس