عرب لیگ مغربی ڈکٹیشن پر عمل کررہی ہے
عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منگل کو مصرمیں منعقد ہوا۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں خلیج فارس کے بعض ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت نہیں کی جس سے عرب ملکوں کے درمیان شدید اختلافات کا پتہ چلتا ہے۔
ادھر عرب ملکوں کے بحرانوں کے بارے میں عرب لیگ کا دوہرا رویہ اس بات کو ظاہر کردیتا ہےکہ عرب لیگ کے ملکوں کے درمیان سیاسی اور عالمی مسائل کے تعلق سے متوازن اور متحدہ موقف نہیں پایا جاتا۔ قاہرہ میں منعقد ہونے والے عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں سعودی عرب، بحرین اور کویت و قطر کے وزرائے خارجہ غائب تھے اور قاہرہ میں سعودی عرب کے سفیر احمد قطان نے سعودی وزیر خارجہ کی نمائندگی کی تھی۔خلیج فارس کے عرب ملکوں کے بیشتر وزرا خارجہ کے اس نشست میں شریک نہ ہونے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عرب لیگ میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور اتحاد کا فقدان ہے۔ عرب لیگ اس وجہ سے بنی تھی کہ عرب ملکوں میں اتحاد کا مظہر ہو اور تمام میدانوں میں امن و استحکام اور تعاون کا سبب بنے لیکن اب یہ لیگ ایک بے اثر تنظیم بن چکی ہے بلکہ سعودی عرب جیسے ملکوں کے ہاتھوں ہتھکنڈا بنی ہوئی ہے اور علاقائی مسائل جیسے فلسطین، شام اور یمن و لیبیا کے بحرانوں کے لئے کوئی راہ حل پیش کئے بغیر محض بیانات جاری کرنے پر اکتفا کرتی ہے۔
عرب وزرائے خارجہ نے اپنے ایک سو سینتالیسیویں اجلاس میں بغیر کوئی عملی راہ حل پیش کیے ہوئے محض نعرے کے طور پر عرب اور اسلامی ملکوں سے مطالبہ کیا کہ مشترکہ اور وسیع اقدامات کرتے ہوئے فلسطینی ملک کو تسلیم کریں۔ اس بیان میں مسجد الاقصی پر صیہونی بستیوں میں رہنے والوں کے آئے دن کے حملوں کی بھی مذمت کی گئي ہے اور یہ بھی نعرے کی صورت میں ہی مطالبہ کیا گیا ہے اور اسے ریڈلائن بھی قراردیا گیا ہے۔ فلسطین کے بارے میں عرب لیگ کا موقف اس قدر نمائشی اور تشہیراتی ہے کہ اس پر خود اس لیگ کے بعض ارکان نے احتجاج کیا ہے۔ مثال کے طور پر عراق کے وزیر خارجہ نے کہا ہےکہ تقریروں اور بیان بازی سے پرہیز کرنا چاہیے اور عملی طریقے سے فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے چارہ جوئی کی جائے۔ عرب لیگ کی دوہرے معیارات پر مبنی پالیسیوں کے دائرے میں ہی عراق کی حکومت کی تجویز کا جائزہ نہیں لیا گیا۔عراقی وزیر خارجہ نے تجویز پیش کی تھی کہ شام کی رکنیت کی معطلی کو ختم کیا جائے۔ عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیط نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شام کی رکنیت بحال کرنے کے لئے ابھی حالات ساز گار نہیں ہیں۔ واضح رہے عرب لیگ نے دہشتگردوں کے مقابلے میں شام کے عوام کے حق میں نمائیشی اور دکھاوے کا موقف اپنانے سے بھی دریغ کیا ہے بلکہ بعض عرب ملکوں کی سازشوں اور جرائم کو عرب رنگ دینے میں کوتاہی نہیں کی ہے۔ یاد رہے کہ بعض عرب ممالک مغرب کے ساتھ شام کے خلاف سازشوں میں شامل ہیں۔ دراصل عرب لیگ شام کا بحران حل کرنے کے بجائے اس بحران کو حل کرنے کی عالمی کوششوں میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے۔شام عرب لیگ کے بانی ملکوں میں سے ہے لیکن عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل کرکے مغربی حکومتوں کے ڈکٹیشن پرعمل کیا ہے۔اس غیر ذمہ دارانہ اقدام سے پتہ چلتا ہےکہ عرب لیگ بعض عرب حکام کے اشاروں پر چل رہی ہے جو محض علاقے پر اپنا تسلط جمانا چاہتے ہیں۔ بے شک اس طرح کی مذموم سازشوں سے عرب لیگ کی حیثیت کو شدید دھچکا پہنچا ہے کیونکہ عرب لیگ بنیادی مسائل چھوڑ کر چھوٹے موٹے مسائل کی فکر میں لگ گئی ہے۔