کیا غزہ میں جنگ بندی کے بعد صیہونی حکام کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں؟
غزہ میں جنگ بندی کی وجہ سے صیہونی حکام میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں اور وہ جنگ بندی معاہدے کو مزاحمتی فرنٹ کے سامنے صیہونی حکومت کی شکست قرار دے رہے ہيں
سحرنیوز/دنیا: صیہونی حکومت کے وزیر خزانہ اسموتریچ نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائيل کے پاس قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہيں تھا اور کوئي بھی اس میں رکاوٹ نہيں ڈال سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے سے یہ ثابت ہو گیا کہ اسرائيل گھٹنے پر آ گیا ہے اور ان حالات میں وہ شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہو گيا۔ انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ صیہونی آبادکاروں کی گرفتاری، تل ابیب کے لئے کاری ضرب تھی کہا کہ ان حالات میں اسرائيل کو اسٹریٹجک شکست ہوئي ہے۔
اسموتریچ نے یہ بیان ایسے حالات میں دیا ہے کہ جب صیہونی رکن پارلیمنٹ الموگ کوہن نے آرمی اسٹاف کے اراکین کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سب کو استعفی دینا چاہیے ورنہ انہيں جیل بھیج دیا جانا چاہیے۔
اسی طرح صیہونی وزير سلامتی بن گویر نے بھی اتوار کی رات کی ایک بار جنگ بندی معاہدے کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس معاہدے سے اسرائيل کے لئے خطرہ پیدا ہو گيا ہے۔ صیہونی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے بھی سی این این کے ساتھ ایک گفتگو میں کہا ہے کہ گالانت کے بر خلاف وہ یہ نہيں سمجھتے کہ غزہ جنگ کا مقصد حاصل ہوا ہے کیونکہ حماس بدستور اقتدار پر قابض ہے۔ صیہونی حکام ایسے حالات میں غزہ میں شکست کا اعتراف کر رہے ہيں کہ جب القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے اتوار کی شب الاقصی طوفان کو جد و جہد کا تاریخی نمونہ قرار دیا اور کہا کہ اس آپریشن سے صیہونی حکومت کو ہلاکت خیز چوٹ پہنچی ہے۔
انہوں نے کہا کہ الاقصی طوفان آپریشن نے علاقے کی صورت حال بدل دی اور اس آپریشن سے دشمن کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔