ہندوستانی وزیر اعظم کا دورہ جرمنی
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی، یورپی ملکوں کے اپنے دورے میں جرمنی گئے اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل سے مذاکرات کئے-
مرکل نے اس ملاقات میں نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں منجملہ ہندوستان کے ساتھ تعاون میں توسیع کی ضرورت پر تاکید کی اور کہا کہ ہندوستان کے ساتھ تعاون کی توسیع جرمنی کے لئے قابل ذکر اہمیت کی حامل ہے تاہم بحر اٹلانٹک کے دونوں طرف کے ملکوں کے تعلقات تاریخی لحاظ سے جرمنی کے لئے اہمیت رکھتے ہیں اور مستقبل میں بھی یہ تعلقات اہمیت کے حامل رہیں گے۔ اس ملاقات میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی جرمنی کو ہندوستان کا قابل اعتماد شریک ملک قرار دیا۔
ہندوستانی وزیر اعظم نریند مودی نے جرمنی اور ہندوستان کی حکومتوں کے درمیان چوتھے مشاورتی اجلاس میں شرکت کے لئے برلین کا دورہ کیا - جرمنی ہندوستان کا چھٹا ، بڑا تجارتی شریک ہے، جبکہ یورپی یونین میں ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شریک اور ہندوستان میں ساتواں بڑا غیرملکی سرمایہ دار ملک ہے اور جرمن چانسلر نے بھی حال ہی میں اپنے دورہ دہلی نو میں یہ واضح کیا ہے کہ دونوں فریق کی کوشش کی ہے باہمی تعاون میں توسیع کے لئے موجودہ گنجائشوں سے زیادہ سے زیادہ سے استفادہ کریں - دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی لین دین کی شرح اٹھارہ ارب ڈالر سے زیادہ ہے کہ جو کیمیائی مادے، مشینری، الیکٹریکل سامان اور ٹیکسٹائل مصنوعات سے متعلق ہے-
اس کے ساتھ ہی جرمنی کا خیال ہے کہ ہندوستان کی آبادی ایک ارب بیس کروڑ سے زیادہ ہونے کے ساتھ ہی یہ ملک مختلف مصنوعات کے لئے پرکشش منڈی ہے اور نئی دہلی اور برلین کو چاہئے کہ اقتصاد، زراعت ، سیکورٹی مسائل ، ترقیاتی مسائل اور دفاعی امور میں ایک دوسرے کے ساتھ ماضی سے زیادہ تعاون کریں - لیکن جرمنی کے اقتصادی و تجارتی حلقے، ہندوستان کے پیچیدہ دفتری قوانین، مالی بدعنوانی، ماہر افرادی قوت کے فقدان اور ٹیکس سے متعلق مسائل و مشکلات سے گلہ مند ہیں اور انہیں نریندر مودی کی حکومت سے یہ امید ہے کہ وہ دوطرفہ تعلقات کی توسیع کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو برطرف کریں گے- اسی سبب سے برلین حکومت ، ہندوستان میں سرمایہ کاری کی شرح سے، جو تقریبا دس ارب ڈالر ہوتی ہے چنداں راضی نہیں ہے اور وہ اس میں اضافہ چاہتی ہے-
در ایں اثنا تقریبا سولہ سو جرمن کمپنیاں بھی ہندوستان میں سرگرم ہیں کہ جو برلین حکومت کے نقطہ نگاہ سے اس ملک کے اقتصادی اور سماجی ترقی کے عمل کے ساتھ متناسب نہیں ہے- اگرچہ جرمنی اور ہندوستان کی حکومت نے دوہزار ایک سے اپنے اسٹریٹیجک تعلقات کا، خاص طور پر اقتصادی شعبے میں آغاز کیا ہے لیکن ہندوستان کو ان تعلقات سے زیادہ فائدہ نہیں پہنچا ہے - ہندوستان کو توقع ہے کہ نئی دہلی اور برلین کے تعلقات ، ساخت و ساز اور فروخت میں شراکت داری پر مبنی ہوں لیکن جرمن حکومت کی زیادہ تر توجہ ہندوستان کی پرکشش منڈی پر ہے اور اس نے ابھی تک ٹکنالوجی منتقل کرنے سے متعلق ہندوستان کی حکومت کی توقعات کو پورا نہیں کیا ہے-
مودی کو یہ امید ہے کہ جرمنی بھی ہندوستان کے سامان کی فروخت کے لئے اپنی منڈی کھول دے گا اور محض پیشہ ور افراد اور ماہر افرادی قوت کی منتقلی تک ہی یہ سلسلہ محدود نہ رہے- اس درمیان ہندوستان کی حکومت کو، یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے بعد اس کا شیرازہ منتشر ہونے سے تشویش لاحق ہے کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ یورپی یونین عالمی سطح پر توازن برقرار کرسکتی ہے- امریکی صدر ٹرمپ کا اپنے ملک کی افرادی قوت کے ساتھ جو رویہ ہے اس نے ہندوستان کی حکومت کو اس تشویش میں ڈال دیا ہے کہ وہ اپنی ماہر افرادی قوت کو کیسے امریکہ بھیجے۔ اسی لئے نئی دہلی کی حکومت کو یہ توقع ہے کہ یورپی ممالک خاص طور پر جرمنی ، ہندوستان کی پیداواری مصنوعات اور افرادی قوت دونوں پر یکساں توجہ دیں-