امریکی وزیر جنگ کے بیانات شرمناک اور بین الاقوامی قوانین کے منافی
ایران کے بارے میں امریکی وزیر جنگ جیمز میٹس (James Mattis) کے بیانات سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ امریکہ، ایران کے سلسلے میں کن اہداف کے درپے ہے۔ امریکی وزیر جنگ نے منگل کے دن ڈیلی کالر (daily caller) نامی ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان مثبت تعلقات قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایران پر حکفرما نظام حکومت میں تبدیلی لائی جائے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل حسین دہقان نے امریکی وزیر جنگ کے ان بیانات کے خلاف اپنا رد عمل ظاہر کیا۔
ایرانی وزیر دفاع نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امریکی وزیر جنگ کے بیانات شرمناک اور بین الاقوامی قوانین کے منافی ہیں، ایران کے بارے میں امریکی وزیر جنگ کے بیانات کو بیمار اور تیز بخار والے شخص کی ہذیان گوئی قرار دیا۔
بریگیڈیئیر جنرل حسین دہقان نے کہا کہ امریکی وزیر جنگ اور حکمراں ٹولے کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ایرانی عوام کے لیے راستے کا تعین کرنے کے بجائے اپنے اندرونی مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں۔
انہوں نے کہا کہ اندرونی مسائل کے نتیجے میں امریکہ کی موجودہ حکومت اور امریکہ کے سیاسی نظام کا شیرازہ عنقریب بکھرنے والا ہے۔
ایران کے وزیر دفاع نے کہا کہ سامراجی ذہنیت اور جھوٹی طاقت کے نشے میں امریکی وزیر جنگ جیمز میٹس کی عقل زائل ہوگئی ہے۔ ایران کے بارے میں امریکی حکام کی اس طرح کی لفاظی کے خلاف صرف ایرانی حکام نے ہی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے بھی اپنی کل کی اشاعت میں ان بیانات پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایران میں اگست سنہ انیس سو ترپن میں ہونے والے کودتا میں امریکہ کے کردار کی جانب اشارہ کیا اور ایران میں حکومت کی تبدیلی کی ضرورت سے متعلق امریکی حکام کے تازہ بیانات کے بارے میں لکھا کہ امریکی حکام نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کو تاریخ یاد نہیں رہی ہے اور وہ اس وقت ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں جو ان کی اپنی ناکامی پر منتج ہوسکتا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ ٹرمپ حکومت کو ایران میں حکومت کی تبدیلی سے متعلق اپنی دستاویزات کا اچھی طرح جائزہ لینا چاہئے، لکھا ہے کہ گزشتہ مہینے امریکی وزارت خارجہ نے ایران میں سنہ انیس سو ترپن میں ہونے والے کودتا میں امریکہ کے کردار سے متعلق سیکڑوں دستاویزات جاری کیں۔ اس برس سی آئی اے اور برطانیہ کی مشترکہ سازش سے ایران کی قانونی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اب ممکن ہے کہ امریکی یہ محسوس کریں کہ وہ اس کودتا کو بھول چکے ہیں لیکن مشرقی وسطی کے بہت سے لوگ اس کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔
چونسٹھ برس قبل ایران میں اس وقت کے امریکی سفیر ہنڈرسن کا بھی ایران کے بارے میں یہی خیال تھا۔
ایرانی مورخ ارواند آبراھامیان کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ہنڈرسن وقتا فوقتا بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ امریکہ دوسرے ممالک میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس کے بعد وہ خود مداخلت کی پالیسی کو عملی جامہ پہناتے تھے ۔
امریکہ کے موجودہ حکام بھی انہی باتوں کو دہرا رہے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وائٹ ہاؤس ماضی کی پالیسیوں کا احیا کرنے کے درپے ہے۔ امریکہ کی سب سے بڑی اسٹریٹیجک غلطی یہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کا موازنہ کمزور اور پٹھو حکومتوں کے ساتھ کرتا ہے اور وہ اس گمان باطل میں مبتلا ہے کہ وہ ماضی کی طرح ایران کو ڈرا دھمکا کر جھکا سکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے بھی امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی میں کہا ہے کہ امریکہ، ایران میں حکومت کی تبدیلی کے لیے واشنگٹن کی مدد کرنے والے اندرونی عناصر کی بھرپور حمایت کرے گا۔ بہرحال امریکی حکام کے بیانات سے اس حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف اپنے اہداف کے حصول کے لئے ہر آپسن کو مدنظر رکھتا ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکہ نے فوجی اور اقتصادی میدانوں میں سافٹ وار اور ہارڈ وار سے فائدہ اٹھایا لیکن اسے ایران کے اسلامی جمہوری نظام اور انقلاب کی اقدار میں کمی لانے میں کامیابی حاصل نہ ہوئی کیونکہ ایرانی قوم امریکہ کی ماہیت اور اس کے ہتھکنڈوں کو اچھی طرح جانتی ہے اور اس نے امریکہ کے دباؤ کے مقابلے میں ثابت قدم رہتے ہوئے امریکی توسیع پسندی کا جواب نفی میں دیا ہے اور یہی وہ جواب ہے جو ایرانی قوم نے ان تمام برسوں کے دوران امریکہ کو دیا ہے۔