Jul ۲۵, ۲۰۱۷ ۱۸:۰۴ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے لئے امریکہ کے سیاسی عزم پر تاکید

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اخبار نیویارک ٹائمز کو اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان امریکہ اور ایران کے درمیان ہونے والا دو طرفہ معاہدہ نہیں ہے اور امریکہ کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ یہ چند طرفہ معاہدہ ہے۔ محمد جواد ظریف کے اس انٹرویو کے بعض حصے چوبیس جولائی کو شائع کئے گئے۔

محمد جواد ظریف نے اس انٹرویو میں اس نظریئے کو بیان کرتے ہوئے،  کہ امریکہ اس وقت مشترکہ جامع ایکشن پلان پر بہت کم عملدرآمد کر رہا ہے ، اس سلسلے میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے یہ جو کہا ہے کہ امریکہ کو مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنے کے لئے سیاسی عزم و ارادے کی ضرورت ہے تو ان کا اشارہ امریکہ کی پالیسیوں اور اس کے عمل میں پائے جانے والے تضاد کی جانب ہے۔ البتہ ایسا نظر آتا ہے کہ اس معاہدے پر امریکہ کے سو فیصد اثر انداز ہونے اور اس کے یکطرفہ اقدام کا راستہ جس چیز نے روکا ہے وہ یہ ہے کہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کا معاہدہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر دستخط کرنے والے دوسرے فریق منجملہ چین، روس اور یورپی یونین بھی اس معاہدے کے تحفظ کے لئے سیاسی عزم کی تقویت کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان کانگ نے پیر کے دن اپنی پریس کانفرنس میں اس معاہدے کے تحفظ کے لئے سیاسی عزم کی تقویت کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ چین کا موقف ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان چند فریقوں کے مذاکرات کا ایک اہم نتیجہ اور بین الاقوامی کشیدگی منجملہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے متعلق مسائل کو سیاسی اور سفارتی طریقوں سے حل کرنے کا بہترین نمونہ ہے۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بھی اس سے قبل کہا تھا کہ اس معاہدے کا یکطرفہ طور پر دوبارہ کھولے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان ان تمام فریقوں کے مفادات کا حامل ہے جنہوں نے اس پر دستخط کئے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس معاہدے کی توثیق کی ہے۔

ماڈرن ڈپلومیسی (Modern Diplomacy) کی ویب سائٹ نے پیر کے دن کی اپنی رپورٹ میں امریکہ کے اس رویئے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ واشنگٹن میں ایسے افراد موجود ہیں جو ابھی تک یہ تصور  کرتے ہیں کہ پابندیوں اور دباؤ کے ذریعے ایران کو جھکایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے عراق ایران جنگ میں ایران کی جانب سے عراق کو دیا جانے والا جواب فراموش کر دیا ہے اور ان کو یاد نہیں ہے کہ ایران نے بہت زیادہ جانی نقصان اٹھانےکے باوجود زیادہ اسلحے سے لیس عراق کے مقابلے میں استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا تھا۔

اس بات میں کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے سلسلے میں امریکہ کا رویہ بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہے۔ البتہ امریکہ کے اس رویئے میں تضاد بھی نظر آتا ہے۔ ایرانی شہریوں اور کمپنیوں کے خلاف نئی پابندیوں سے متعلق بل ایسی حالت میں امریکی کانگریس میں منظوری کے لئے پیش کیا گیا ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے دوسری مرتبہ ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی پابندی کی تصدیق کی۔ اس لئے امریکی حکومت کے رویئے کو ٹرمپ کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن  پلان پر عملدرآمد کے سیاسی عزم کے حامل ہونے کی علامت قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔

درحقیقت امریکی حکومت نے ایران کی جانب سےمشترکہ جامع ایکشن پلان  کی پابندی کی تصدیق کر کے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ کو مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کے سلسلے میں ایران کے ساتھ کوئی پرابلم نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایران ہے جسے مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ کرنے کی بنا پر امریکہ سے شکایت ہے کیونکہ امریکہ نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے متن اور روح دونوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

ٹیگس