روس اور انڈونیشیا کے درمیان تعاون میں توسیع
انڈونیشیا اور روس کے وزرائے خارجہ نے جنوب مشرقی ایشیا کے علاقے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے مقصد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو مستحکم کرنے پر اتفاق کیا ہے-
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اپنے دورہ انڈونیشیا کے موقع پر کہا کہ نہ صرف یہ کہ داعش کا خطرہ ختم نہیں ہوا ہے بلکہ پوری دنیا منجملہ روس اور انڈونیشیا کی سرحدوں کے قریبی علاقوں میں بھی دہشت گرد پھیلے ہوئے ہیں- گزشتہ دو عشروں کے دوران انتہا پسندی اور دہشت گردانہ کاروائیوں میں شدت، مختلف ملکوں کے لئے مشترکہ خطرے میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس سے مقابلے کے لئے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سیکورٹی اور انٹلی جنس اداروں کے درمیان تعاون کے حالات سازگار ہوئے ہیں-
پہلے طالبان گروہ سے مقابلہ تھا پھر القاعدہ گروہ وجود میں آیا اور اب اس وقت گروہ داعش علاقے اور دنیا کے ملکوں کے لئے خطرہ بن گیا ہے- داعش دہشت گرد گروہ کی کاروائیوں میں دن بدن شدت آنے سے، مختلف علاقائی اور بین الاقوامی حلقوں میں ماضی سے زیادہ تشویش پائی جاتی ہے- داعش دہشت گرد گروہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں اس کے علاقائی اتحادی گروپ جیسے مایوٹ اور ابوسیاف گروہ، بدترین دہشت گردانہ اقدامات انجام دے رہے ہیں-
اس صورتحال نے جہاں جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کو تشویش میں ڈال دیا ہے وہیں ماسکو بھی اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ امریکہ ، داعش کو وجود میں لانے اور اسے خاص طور پر روس کے اطراف میں، افغانستان سے جنوب مشرقی تک پھیلانے کے ذریعے روس کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے-
اس بناء پر شام میں داعش کے خلاف جنگ میں روس کی شمولیت نے یہ ثابت کردیا کہ اسے اس گروہ سے بہت زیادہ خطرہ لاحق ہے اور اس سلسلے میں اس کی کامیابی اس بات کا باعث بنی کہ ماسکو ان ملکوں کے ساتھ سیکورٹی تعاون کے لئے بلند قدم اٹھائے جو داعش گروہ کے ناپاک وجود سے زیادہ خطرہ محسوس کر رہے ہیں-
23 مارچ 2017ء کو دہشت گرد تنظیم داعش نے فلپائن کے جنوب میں واقع مسلم آبادی والے شہر ماراوی میں، فلپائن فوج کیخلاف جھڑپوں کے بعد شہر پر قبضہ کرتے ہوئے شہر میں اپنی نام نہاد اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کردیا تھا- ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ داعش کی مشرقی و سطٰی میں پسپائی کے بعد، یہ دہشت گرد تنظیم جنوب مشرقی ایشیاء یا پھر شمالی افریقہ میں اپنی نام نہاد دولت اسلامیہ کو قائم کرے۔ اسی لئے علاقے کے ملکوں منجملہ انڈونیشیا میں ماضی سے زیادہ تشویش پائی جاتی ہے-
انڈونیشیا میں دہشت گردی سے مقابلے کے شعبے کے تجزیہ نگار " آنشاد مبای " کا کہنا ہے کہ جن افراد نے عراق اور شام میں داعش دہشت گرد گروہ کی حمایت کی ہے اور اس میں شامل ہوئے ہیں اب وہ انڈونیشیا میں داعش کے قدم جمانے کے درپے ہیں اور یہ بات اس ملک اور علاقے کی سیکورٹی کے لئے بہت زیادہ خطرے کا باعث ہے-
بہت سے ملکوں میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں اہداف ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس بنا پر اس قسم کے دہشت گردانہ واقعات کو ایک مشترکہ خطرہ سمجھنا چاہیے۔ دہشت گردی اور انتہاپسند گروہوں کے خلاف جد وجہد کے لئے تعاون، علاقے کی اہم ترین ترجیحات میں ہے- اس تعاون کا مقصد علاقے میں امن و استحکام کو مضبوط بنانا اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنا ہونا چاہئے-
بہر صورت جنوب مشرقی ایشیا کے علاقے میں داعش دہشت گرد گروہ سے مقابلے کے لئے سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے باہمی تعاون کے ساتھ ہی اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کی جڑ تک پہنچا جائے اور اس کی بیخ کنی کی جائے کہ جو وہابی افکار کی دین ہے- کیوں کہ سعودی عرب اپنی اس گمراہ اور انحرافی فکر کو بھاری رقوم خرچ کرنے کے ساتھ ہی پھیلا رہا ہے اور جنوب مشرقی ایشیا میں داعش کو مستحکم کرنے کی چال چل رہا ہے اور اس کے خاتمے کے لئے صرف روس کا سیکورٹی تعاون بھی کافی نہیں ہوگا -