ایران کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے پر قطر کی تاکید
قطر کی وزارت خارجہ نے جمعرات کی صبح کو اعلان کیا ہےکہ وہ اپنے سفیر کو دوبارہ تہران بھیج رہی ہے-
قطر کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دوحہ کا یہ اقدام دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مضبوط کرنے کے مقصد سے انجام پا رہا ہے- قطر نے گزشتہ سال جنوری میں سعودی عرب کے دباؤ کے سبب اپنا سفیر دوحہ واپس بلالیا تھا-
قطر کے وزیر دفاع نے بھی حال ہی میں کہا تھا کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی ظالمانہ پابندیوں کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے قطرکی پروازوں کے لئے اپنی فضائی حددو کھول کر دوحہ کو سانس لینے کا موقع فراہم کیا- خالد بن محمد العطیہ نے کہا کہ ایران نے مزید برآں قطر کو اشیائے خورد و نوش بھی فراہم کی ہیں-
واضح رہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے گزشتہ پانچ جون کو قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات توڑ لئے تھے۔ سعودی عرب کی قیادت میں ان ملکوں نے قطر کے ساتھ اپنے تعلقات اس بات کو بہانہ بناکر ختم کئے کہ قطر علاقے میں ان گروہوں کی حمایت کرتا ہے جو ایران کے زیر اثر ہیں اور دوسرے یہ کہ قطر عرب ملکوں کے موقف کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔
سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر کو سفارتی و تجارتی تعلقات کی بحالی کے لیے 13 مطالبات پیش کئے تھے۔ جن میں سے اہم ترین شرط ایران ، حزب اللہ لبنان اور فلسطین کے مزاحمتی گروہوں کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنا شامل ہے تاہم قطر کا کہنا ہے کہ اس کے لیے یہ مطالبات ناقابل قبول اور ناقابل عمل ہیں۔
دوحہ بدستور اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ وہ بحران کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کے لئے تیار ہے۔ قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے ایک بار پھر کہا ہے کہ جن عرب ملکوں نے قطر کا محاصرہ کیا ہے انہیں چاہئے کہ وہ قطر پر عائد کئے گئے اپنے الزامات کو ثابت کریں۔ سعودی عرب اور اس کے ساتھی عرب ملکوں نے قطر پر دوسرے ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت اور دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا ہے۔
قطری وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر اختلافات، خارجہ پالیسی کے بارے میں ہوں تو کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی ایک آزاد اور خود مختار ملک پر مسلط کرے۔ قطر کے وزیر خارجہ نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ انہوں نے اب تک علاقے کے کسی بھی ایک ملک کے خلاف ایسی دشمنی کا مشاہدہ نہیں کیا تھا، کہا کہ قطر اب بھی مسائل کو سفارتی طریقے سے ہی حل کرنے کو واحد طریقہ سمجھتا ہے۔
قطر نے گزشتہ مہینوں میں بارہا اس امر پر تاکید کی ہے کہ حماس اور حزب اللہ دو مزاحمتی طاقتیں ہیں جو دشمن کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران بھی علاقے میں ایک طاقتور ملک شمار ہوتا ہے اور علاقے کے تمام ملکوں کی گنجائشوں اور صلاحیتوں سے بہرہ مند ہونا ناگزیر ہے-
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کا خیال ہے کہ اخوان المسلمین اور حماس دہشت گرد گروہ ہیں جبکہ قطر کی حکومت کے اخوان المسلمین اور حماس دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ سنہ دو ہزار چودہ میں بھی اسی مسئلے کی وجہ سے قطر اور ان تین ممالک کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تھے اور ان ممالک نے دوحہ سے اپنے سفیر واپس بلا لئے تھے۔ قطر کی حکومت سنہ دو ہزار گیارہ سے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں شروع ہونے والے حکومت مخالف احتجاج کو اپنی علاقائی پوزیشن کو مضبوط بنانے کا ایک موقع قرار دیتی ہے جبکہ اس احتجاج کا نشانہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی حکومتیں ہیں۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی حکومتوں کا خیال ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں کشیدگی پھیلا رہا ہے اور وہ تہران کے ساتھ اپنے تعلقات کی سطح کم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں لیکن قطر کی حکومت کا نہ صرف یہ خیال ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے کی ایک بڑی طاقت ہے کہ جس نے خطے میں قیام امن کے سلسلے میں مثبت کردار ادا کیا ہے بلکہ وہ تہران کے ساتھ اپنے تعلقات میں توسیع کی بھی خواہاں ہے۔
آل سعود نے امریکی ایماء پر بہت زیادہ کوششیں انجام دیں تاکہ اسلامی جمہوریہ ایران سے مقابلے کے لئے عرب نیٹو اتحاد تشکیل دے لیکن سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ قطر کے اختلاف نے یہ ثابت کردیا کہ عرب نیٹو اتحاد کا قیام عملی ہونا ممکن نہیں ہے بلکہ قطر عمان اور کویت جسے عرب ممالک تو اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات میں توسیع پر زور دے رہے ہیں اور یہ تبدیلی سعودی عرب کے ماضی سے زیادہ گوشہ نشیں ہونےاور علاقے میں اس کے گنے چنے اتحادیوں پر منتج ہوئی ہے- علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں نے عالمی سطح پر ایران کی کامیاب پالیسیوں کی روزافزوں اہمیت اور پوزیشن کو ماضی سے زیادہ نمایاں کردیا ہے۔