ایٹمی معاہدے کی یورپی یونین کی جانب سے حمایت
یورپی یونین کے سربراہان مملکت نے برسلز میں منعقدہ اجلاس میں ایک بیان میں، ایٹمی معاہدے کے تمام فریقوں سے اس معاہدے کی پابندی کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔ در ایں اثنا بعض سفارتکاروں نے فرانس ، جرمنی اور برطانیہ کے سربراہوں کی جانب سے غیر ایٹمی مسائل خاص طور پر میزائل صلاحیت کے بارے میں دباؤ قائم رکھنے کی خبر دی ہے۔
مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدے کی صورت میں مذاکرات کے نتائج، ابتداء سے ہی شکوک و شبہات اور کمزور حیثیت کے حامل تھے اور امریکی صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کےبعد یہ کمزوریاں کھل کر سامنے آگئیں- اس وقت امریکی رویے سے، بین الاقوامی سطح پر ایک کشیدہ صورتحال پیدا ہو رہی ہے- یورپی یونین نے بہت سے مسائل میں ٹرمپ کے اپنے وعدوں پر قائم نہ رہنے اور معاہدوں پر عمل نہ کرنے کے سبب، امریکہ سے دوری اختیار کرلی ہے، یہ دوریاں سب سے زیادہ ماحولیاتی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد وجود میں آئی ہیں جس پر یورپی ملکوں نے بہت زیادہ منفی ردعمل ظاہر کیا ہے- اس وقت ایٹمی معاہدے کے سبب یہ اختلافات نئی صورتحال اختیار کر گئے ہیں- سیپری انسٹی ٹیوٹ (Stockholm International Peace Research Institute) کے دو سینئر تجزیہ نگاروں "تارجا کرونبرگ" اور " ٹیٹی اریسٹو" کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی حکومت نے ایک درمیانی راستے کے طور پر پورے ایٹمی معاہدے یا اس کے بعض حصے کے تعلق سے دوبارہ مذاکرات کا نظریہ پیش کیا ہے اور اس سلسلے میں یورپی ملکوں کے ساتھ لابی کی ہے-
تاہم یورپی ملکوں نے ایک بیان جاری کرنے کے ذریعے ایٹمی معاہدے کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کی تجویز کی مخالفت کی ہے- اس کے ساتھ ہی بعض شواہد سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یورپی یونین ایک طرح سے شارکٹ راستہ تلاش کرنے کے درپے ہے- یورپی یونین مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدے کے ایک فریق کی حیثیت سے اس کوشش میں ہے کہ اس سمجھوتے کی ، اپنے اقتصادی مفادات کے تحفظ اور اس پر مکمل عملدرآمد کی غرض سے حمایت کرے اور دوسری طرف یورپی یونین اور ایران کے درمیان تجارت اور اس سے حاصل ہونے والے مفادات کے پیش نظر، ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے سبب یورپی یونین کو جو نقصان ہوگا اس سے بچنے کے لئے یہ یونین، ایٹمی معاہدے کو میزائل کے مسئلے اور دیگر مسائل سے الگ رکھنے کی کوشش میں ہے-
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کے غیر منطقی اور کشیدگی پیدا کرنے والے اقدامات ہر صورت میں یورپی یونین پر اثرانداز ہوں گے- اگرچہ امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ایران کے ساتھ یورپی یونین کی تجارت میں کوئی خلل یا رکاوٹ پیدا کریں۔ برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے نے گزشتہ روزبرسلز میں یورپی یونین کی سربراہی کانفرنس کے اختتام پرصحافیوں سے گفتگو میں ایران کے جوہری معاہدے کو مشترکہ سیکورٹی مفادات کے لئے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین اس معاہدے کے حوالے سے اپنے وعدوں پر قائم ہے - اس موقع پرانہوں ںے کہا کہ یورپ، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے حوالے سے کئے جانے والے وعدوں کے نفاذ کے لئے پُرعزم ہے۔
دوسری جانب فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی یورپی یونین کے اجلاس کے اختتام پرکہا کہ یورپ، ایران جوہری معاہدے کے نفاذ کے لئے پُرعزم ہے۔ در ایں اثنا یورپی یونین اور جنوبی کوریا نے دنیا میں مہلک تھیاروں کے عدم پھیلاو کو یقینی بنانے کے لئے ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان طے پانے والے ایٹمی سمجھوتے کو اہم قرار دیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے گذشتہ ہفتے کے اپنے بیان میں فرمایا تھا کہ یورپی حکومتوں نے ایٹمی معاہدے کے باقی رہنے پرزور دیا ہے اور امریکی صدر کے بیانات کی مذمت کی ہے، ہم اگرچہ یورپی حکومتوں کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن یہ کافی نہیں ہے کہ وہ صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کریں کہ ایٹمی معاہدے کو ختم نہیں کریں گے کیوں کہ یہ ایٹمی معاہدہ ان سب کے نفع میں ہے، بلکہ آپ نے یورپی ملکوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یورپ کو چاہئے کہ وہ امریکا کے عملی اقدامات کے مقابلے میں ڈٹ جائے اور ایران کے دفاعی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے اور امریکا کی زور و زبردستی والی باتوں کا ساتھ نہ دے۔