Nov ۰۸, ۲۰۱۷ ۱۶:۰۴ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدے کے تحفظ کی غرض سے واشنگٹن میں موگرینی کا تبادلۂ خیال

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے واشنگٹن میں ایٹمی معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہ ہونے پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکی اس معاہدے میں باقی رہنا چاہتے ہیں۔

فیڈریکا موگرینی نے جو ایٹمی معاہدے کے مسئلے پر امریکی کانگریس کے اراکین سے بات چیت کے لئے واشنگٹن کے دورے پر ہیں کہا ہے کہ آشکارہ علامتوں سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اراکین کانگریس یہی چاہتے ہیں کہ امریکہ، ایٹمی معاہدے سے باہر نہ نکلے۔ انہوں نے اسی طرح ایٹمی معاہدے کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کے امکان کو محال قرار دیا اور کہا کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ ایٹمی معاہدے کی کسی ایک شق کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کرے تو اس سے پورا معاہدہ بکھر کر رہ جائے گا۔ 

ایٹمی معاہدے پر اسلامی جمہوریہ ایران کے پابند ہونے کی تائید و توثیق کرنے سے انکار پر مبنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گذشتہ ماہ کے فیصلے کے بعد، امریکی کانگریس کو ساٹھ روز کی مہلت ملی ہے تاکہ وہ ایران کے خلاف معطل ایٹمی پابندیوں کو جاری رکھنے یا اسے روک دینے کے بارے میں فیصلہ کرے۔ یہ ایسے میں ہے کہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ صراحتا اس بات کا پابند ہے کہ وہ ایران کے خلاف ایٹمی پابندیوں کو، اس وقت تک جب تک کہ یہ ملک اس سمجھوتے کے دائرے میں اپنے وعدوں پر عمل کرتا رہے گا،  منسوخ یا معطل کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ 

ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے رکن ملکوں، امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین ، جرمنی اور یورپی یونین نے جولائی دوہزار پندرہ میں جامع ایٹمی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس پر عملدرآمد کے بعد ایران کے خلاف تمام ایٹمی پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیا گیا تھا۔  یورپی یونین سمیت عالمی برادری نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران  شروع ہی سے جامع ایٹمی معاہدے کی پابندی کرتا چلا آرہا ہے لیکن امریکہ اس عالمی معاہدے کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے میں مصروف ہے۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی انچارج فیڈریکا موگرینی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ایران کے ساتھ ہونے والا ایٹمی معاہدہ ایک عالمی معاہدہ ہے اور اس میں کوئی بھی فریق، یک طرفہ طور پر کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا۔

ایک طرف امریکہ کے اندر اور امریکہ سے باہر مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مخالفین اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب ممالک، عالمی ادارے، بااثر سیاسی گروہ اور شخصیات اس معاہدے سے امریکہ کے یکطرفہ طور پر خارج ہونے کی روک تھام کے لئے کوشاں ہیں۔ دریں اثناء اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ اور دسیوں سیاستداں اور بین الاقوامی شخصیات حتی امریکی حکومت میں شامل بعض افراد بھی مشترکہ جامع ایکشن پلان سے متعلق پالیسی کی نوعیت کے بارے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں مثلا امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے ایران کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کئے جانے کو تیکنیکی پابندی سے تعبیر کیا ہے۔

 ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کی جانب سے بھی آٹھ بار اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کی ہے ۔ حتی امریکہ کے بعض ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کی انٹیلی جنس کمیونٹی نے، کہ جو سولہ خفیہ ایجنسیوں اور سیکورٹی اداروں پر مشتمل ہے، اعلان کیا ہے کہ ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی ہرگز خلاف ورزی نہیں کی ہے۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ، فوج اور خفیہ ایجنسیاں اس ایٹمی معاہدے کے تحفظ پر زور دے رہی ہیں جسے اس ملک کے صدر نے امریکی تاریخ کا بدترین اور شرمناک معاہدہ قرار دیا ہے۔ بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے، مشترکہ جامع ایکشن پلان کےمخالف اپنے بعض مشیروں کی مدد سے وزارت خارجہ، فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر غلبہ پانا اور مشترکہ جامع ایکشن پلان سے امریکہ کے خارج ہونے کا اعلان کرنا بہت آسان نہیں ہوگا۔ 

ٹیگس