عبداللہ صالح کی موت، کسی منصوبے، یا سعودی عرب اور امارات سے سازباز کا نتیجہ
یمن کے سابق صدر علی عبد اللہ صالح گذشتہ روز چار دسمبر کو ایسی حالت میں مارے گئے ہیں کہ اس واقعے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ملوث ہونے کے اثرات نظر آئے ہیں-
عبد اللہ صالح خود ہی اس سازش کی بھینٹ چڑھ گئے جو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مل کر تیار کی تھی۔ اگرچہ عبداللہ صالح گذشتہ تین سال کے دوران انصاراللہ کے ساتھ ٹیکنیکل ہم آہنگی رکھتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف عبداللہ صالح کبھی خود کو ایک خودمختار شخصیت تصور نہیں کرتے تھے بلکہ آل سعود حکومت اور حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں آل نہیان نے بھی عبداللہ صالح کو اپنا مہرہ بنا لیا تھا۔
عبداللہ صالح نے 2004 سے 2010 کے درمیان چھ بار حوثیوں کے ساتھ جنگ لڑی اور ان جنگوں میں انہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل تھی۔
عبداللہ صالح نے 2011 میں بھی ایک خوفناک دھماکے میں اپنی موت کامشاہدہ کیا تھا لیکن سعودی عرب کے لئے ان کی اتنی زیادہ اہمیت تھی کہ ریاض نے صالح کے علاج کے لئے تمام تر سہولتیں فراہم کیں اور ان کے علاج میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔ جس کے بعد صالح ایک بارپھر یمن واپس لوٹ آئے اور اس ملک کے عوام کی تحریک کا مقابلہ کرنے لگے۔
وہ چیز جو عبداللہ صالح کی اقتدار سے برطرفی کا باعث بنی، یمنی عوام کا اس ملک کے سیاسی ڈھانچے میں تبدیلی کے لئے دباؤ ڈالنا تھا اور یہی امر اس بات کا سبب بنا کہ سعودی عرب اور امارات کے سارے منصوبے بھی اس کو اقتدار میں باقی رکھنے کے لئے بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ عبداللہ صالح اقتدار سے برطرفی کے بعد اگرچہ سعودی عرب اور امارات سے خوش نہیں تھے لیکن ہمیشہ اس خیال میں رہتے تھے کہ اقتدار میں ایک بار پھر واپسی کے لئے ان دوملکوں کی حمایت حاصل کریں۔ اس طرح سے عبداللہ صالح اور ریاض و ابوظہبی کی حکومتوں کے درمیان اور حتی صالح کے خاندان اور ان دو حکومتوں کے خاندانوں کے درمیان بھی آشکارا روابط قائم تھے۔ اسی تناظر میں احمد عبداللہ صالح کا بیٹا یمن کے سفیر کے طور پر ابوظہبی میں متعین ہوا اورپھر ریاض گیا اور اس وقت عبداللہ صالح کی موت کے ساتھ ہی احمد کی ریاض سے یمن واپسی کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
ان تمام حالات کے پیش نظر عالم عرب کے مسائل کے ماہر محمد علی مھتدی کا خیال ہے کہ عبداللہ صالح کی ہلاکت سے ، 2005 میں لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری اور 2011 میں لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر قذافی کی ہلاکت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے کیوں کہ گذشتہ چند دنوں کے دوران عبداللہ صالح یمن کے اندر جن حالات سے دوچار تھے اس میں ان کی گرفتاری اور حراست کا امکان پایا جاتا تھا۔ اسی بناء پر اس بات کا امکان ہے کہ جو عناصر یمن کے سابق صدر کو انصاراللہ کے ساتھ لڑنے پر اکسا رہے تھے اوراس کام پر مجبور کر رہے تھے انہوں نے ہی صالح کو ختم کرنے کا بھی منصوبہ بنایا ہو تاکہ یمن بھی، لبنان اور لیبیا کی طرح داخلی جنگ سے دوچار ہوجائے۔
ایک اور نظریہ یہ ہے کہ اگر عبداللہ صالح کے قتل کی سازش سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے فوجیوں نے انجام نہ بھی دی ہو اس کے باوجود ان کی موت عبداللہ صالح کے ساتھ ریاض اور ابوظہبی کے غلط طرز عمل کا نتیجہ ہے- متحدہ عرب امارات گذشتہ چند برسوں کے دوران عبداللہ صالح کے ساتھ رابطے میں تھا اور صالح کا بیٹا احمد ، ماضی میں ابوظہبی میں یمن کا سفیر تھا اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اس کے آشکارہ روابط بھی تھے ۔ متحدہ عرب امارات نے ان روابط کی آڑ میں یہ کوشش کی کہ عبداللہ صالح کو انصاراللہ کے مقابل لا کھڑا کرے اور یمن میں نیا فتنہ برپا کردے ۔ اور ساتھ ہی صالح کے بیٹے کواقتدار میں لانے کی حمایت کرے۔ ابوظہبی کی غلطی یہی تھی کہ وہ یہ تصور نہیں کرسکا کہ اسے عوام کی طرف سے پذیرائی نہیں ملے گی اور یہ کہ اسے یمنی عوام کے درمیان کوئی مقبولیت حاصل نہیں ہے اور اسی غلطی کا نتیجہ عبداللہ صالح کی موت کی صورت میں سامنے آیا۔
عالم عرب کے ایک تجزیہ نگار جعفر قنادباشی کا خیال ہے کہ عبداللہ صالح اپنی موت سے قبل تقریبا سعودی عرب کے لئے ایک مہرے میں تبدیل ہوگئے تھے ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی کوشش ہے کہ عبداللہ صالح کی موت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عبداللہ صالح کے حامیوں اور یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کے درمیان لڑائی میں شدت لاکر اور یمن میں آشوب برپا کرکے ، مختصر مدت میں اپنے مفادات کو پورا کریں۔ غرض یہ کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے چاہے عبداللہ صالح کی ہلاکت کا منصوبہ تیار کیا ہو یا پھر یہ کہ ان کی موت ریاض اور ابوظہبی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہو، یمن کے عوام ایک ڈکٹیٹر اور ایسے حاکم کی موت پر کہ جس نے گذشتہ چارعشروں تک یمن پر حکومت کی اور اس ملک کے عوام پر ظلم روا رکھا، بہت خوش ہیں۔