شمالی کوریا کے ساتھ پیشگی شرط کے بغیر مذاکرات کے لئے جنوبی کوریا کی درخواست
شمالی کوریا کے ساتھ پیشگی شرط کے بغیر مذاکرات کے امریکی اعلان کے بعد جنوبی کوریا نے بھی پیونگ یانگ کے ساتھ مذاکرات کی بات کہی ہے۔
دونوں کوریاؤں کے اتحاد کے وزیر چو میونگ گیون نے جنوبی کوریا کی کابینہ میں اعلان کیا ہے کہ یہ ملک ایٹمی پروگرام اور شمالی کوریا کے میزائیل پروگرام کے بارے میں کسی قید و شرط کے بغیر شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے بھی کہا تھا کہ ان کا ملک شمالی کوریا کے ساتھ پیشگی شرط کے بغیر مذاکرات کے لئے آمادہ ہے۔ امریکہ اور جنوبی کوریا کے موقف میں لچک اس کے بعد آئی جب چین نے جزیرہ نمائے کوریا کی سیکورٹی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ بیجنگ کی دوطرفہ تجویز کا مثبت جواب دے ( یعنی یہ کہ امریکہ اور جنوبی کوریا اپنی فوجی مشقیں بند کردیں اور شمالی کوریا اپنا ایٹمی پروگرام بند کردے) ۔
اس بناء پر امریکہ اور جنوبی کوریا کی جانب سے شمالی کوریا کے ساتھ پیشگی مذاکرات کی درخواست نہ صرف چین کی تجویز کا جواب نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے شمالی کوریا کے میزائل اور ایٹمی بحران میں ایک طرح سے امریکہ کا آگے کی سمت فرار ہے کیوں کہ امریکہ بدستور جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ بحری اور فضائی مشقیں انجام دینے، شمالی کوریا کے اطراف اور اسی طرح جاپان کے سمندروں میں اپنے فوجی سازو سامان اور فوجیوں کو تقویت پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور واشنگٹن کی جانب سے امن و صلح کی بات کرنا محض عوام کو دھوکہ دینے اورعلاقے میں اپنی فوجی موجودگی کو جاری رکھنے کی توجیہ کے لئے ہے تاکہ شمالی کوریا کو جنگ پسند ظاہر کرے۔
امریکہ میں سیکورٹی مسائل کے ماہر بروس کلینگر کہتے ہیں:میں شمالی کوریا کے ساتھ امریکی رویے پر معترض ہوں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل شمالی کوریا کو دھمکی دے رہے ہیں۔ ان کا رویہ ممکن ہے ایسی غیض و غصب کی آگ بھڑک اٹھنے پر منتج ہوجائے کہ جس کا دنیا نے تاحال مشاہدہ نہ کیا ہو۔ شمالی کوریا کے رہنما کیم جونگ اون جیسا کہ امریکہ نے دعوی کیا ہے وہ ایک دیوانہ نہیں ، بلکہ غیر منطقی انسان نہیں ہیں-
امریکہ کی جارحانہ پالیسیاں اس بات کا باعث بنی ہیں کہ شمالی کوریا بھی اپنے میزائل پروگراموں کے بارے میں یہ کہہ رہا ہے کہ وہ اپنی دفاعی طاقت کو مزید مستحکم کرنے کے مقصد سے یہ اقدام کر رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ ایک سوچے سمجھے اقدام کے تحت محض جزیرہ نمائے کوریا میں سیکورٹی کی مشکلات بڑھانے کے درپے ہے تاکہ بحیرۂ چین کا مکمل محاصرہ کرکے اور اس ملک کو اس کی سرحدوں میں محددو کرکے، اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنائے۔ لہذا امریکہ اگر واقعی میں جزیرہ نمائے کوریا کے سیاسی حل کے بحران کا خواہاں ہے تو اسے عوام کو فریب دینے والے اقدامات انجام دینے سے پہلے چاہئے کہ اعتماد کی بحالی کے لئے اپنے فوجی پروگرام روک دے اور مذاکرات انجام پانے میں مدد کرے اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ ماہرین ، مشرقی ایشیاء میں امریکی رویے کو، اس ملک کو اپنی طاقت کے زوال سے لاحق تشویش قرار دے رہے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ امریکہ زوال کی طرف بڑھ رہا ہے یہ نظریہ امریکہ کے مخالفین کی طرف سے کوئی نعرہ نہیں بلکہ امریکہ کے اندر اور باہر بہت سے صاحب رائے افراد کا نظریہ ہے اور وہ اس امر پر تاکید کرتے ہیں۔ پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر،عالمی تعلقات کے مبصر اور امریکی خارجہ پالیسی کے نظریہ پرداز جان ایکنبری John Ikanbari نے دوہزار چودہ میں اپنے ایک مضمون لیبرل ورلڈ آرڈر کے مستقبل میں لکھا تھا کہ دنیا کی طاقت میں تبدیلی اور امریکہ کی طاقت کا زوال اور دنیا کے یک قطبی نظام سے نکلنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ امریکہ کا زمانہ ختم ہورہا ہے اور ہم نئی طاقتوں کو ابھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں جبکہ امریکہ کی طاقت فرسودہ ہوتی جارہی ہے اور اسی صورتحال نے امریکہ کو تشویش میں ڈال دیا ہے اور اسی سبب سے وہ چین پر اپنا دباؤ بڑھا رہا ہے۔
بہرصورت اس امر کے پیش نظر کہ امریکہ نے چین کو کنٹرول میں کرنے کے لئے مشرقی ایشیا میں اپنی بھرپور فوجی اور سیکورٹی طاقت مرکوز کردی ہے، اس صورتحال میں بہت مشکل لگتا ہے واشنگٹن ، شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کو اپنے ایجنڈے میں قرار دے گا۔ در ایں اثنا شمالی کوریا نے بھی بارہا اعلان کیا ہے کہ علاقے کے بحران میں ان کا اصلی فریق امریکہ ہے اور دونوں فریق کو مذاکرات کرنا چاہئے۔ اس لحاظ سے شمالی کوریا کے ساتھ پیشگی شرط کے بغیر مذاکرات پر مبنی جنوبی کوریا کا موقف، پیونگ یانگ کے لئے اہمیت نہیں رکھتا ہے-