Dec ۱۷, ۲۰۱۷ ۱۸:۴۴ Asia/Tehran
  • مشرق وسطی کے بارے میں ٹرمپ کی بوکھلاہٹ

مشرق وسطی میں امریکیوں کی پالیسیاں ہمیشہ خطرناک رہی ہیں۔

امریکہ نے خاص طور پر گذشتہ چند برسوں کے دوران ، کشیدگی، خوف و دہشت پھیلانے اور مشرق وسطی کےعلاقے کی صورتحال کو درھم برھم کرنے کے اقدامات انجام دیئے ہیں جس کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ امریکہ کا جو بھی صدر بر سر اقتدار آیا ہے اس نے یہی کہا کہ وہ دنیا کے اس اہم علاقے میں جمہوریت کے فروغ کا خواہاں ہے لیکن وہ چیز جو پہلے سے زیادہ مسئلے کی حقیقت کو واضح کرتی ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ باتیں ہیں کہ جس کا انہوں نے مشرق وسطی میں امریکی پالیسیوں کے تناظر میں صراحتا اعتراف کیا ہے۔ یہ مسئلہ یا تو پہلے سے تیار کئے گئے منصوبے کا غماز ہے یا پھر اس لئے ہے کہ ٹرمپ کو سیاسی میدان میں کوئی تجربہ نہیں ہے اس لئے وہ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ 

گذشتہ برسوں کے دوران سے ہی مشرق وسطی میں امریکہ کی پالیسی یہ رہی ہے کہ اس نے علاقے کے ملکوں کا استحصال کیا ہے اور بعض ملکوں کو اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ہے اس پالیسی کا نمونہ سعودی عرب  ہے کہ جسے ٹرمپ نے دودھ دینے والی گائے سے تشبیہ دیا ہے کہ جس کے دودھ کے آخری قطرے تک استفادہ کیا جائے اور پھر جب اس کا دودھ خشک ہوجائے تو اس کا گوشت کھایا جائے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ اب خود امریکی ذرائع ابلاغ بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکی حکومت اور ٹرمپ کی اپنے تمام تر دعووں کے باوجود مشرق وسطی میں کوئی واضح اور صحیح اسٹریٹیجی نہیں ہے اور ان کی توجہ صرف امریکہ کے مفادات کے تحفظ اور اس کےعملی ہونے پر ہے۔ 

واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں ایک نوٹ میں اسی مسئلے پر تاکید کی ہے اور کہا ہے کہ ٹرمپ کی مشرق وسطی میں کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ٹرمپ کو اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے گیارہ ماہ کا عرصہ گذر رہا ہے اس کے باوجود امریکہ کی خارجہ پالیسی کو کچھ مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے ان میں سے، شام کے خلاف یکطرفہ حملہ، ایٹمی معاہدے کی عدم پابندی اور قدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے جیسے اقدامات ہیں اور امریکہ کی ان ہی پالیسیوں کا یہ نتیجہ نکلاہے کہ علاقے میں اس کے خلاف نیا اتحاد وجود میں آیا ہے البتہ دنیا کے اہم ممالک اور حتی امریکہ کے اتحادی ممالک کا بھی امریکہ پر سے اعتماد کم ہو رہاہے۔ مشرق وسطی میں امریکہ کی گذشتہ ایک سال کے دوران کی پالیسی یہ رہی کہ اس نے کیمیائی ہتھیاروں کے استمعال کے بہانے شام پر یکطرفہ حملہ کیا اور اسی طرح ایٹمی معاہدے پر پابندی کی عدم تصدیق اس امید کے ساتھ کہ یورپی یونین اور امریکی کانگریس ایران کے خلاف اقدامات انجام دیں اور پھر حال ہی میں قدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے ٹرمپ کے اعلان سے، وہ بھی ایسے میں جبکہ امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی سفارتخانے کو وہ برسوں تک قدس منتقل نہیں کریں گے، امریکی حکام کی باتوں میں عدم یکسانیت اور ان کی بوکھلاہٹ کو پہلے سے زیادہ نمایاں کر دیتی ہے۔

بہت سے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آج مشرق وسطی میں امریکی مفادات کے لئے دو اہم خطرے موجود ہیں کہ جن میں سے ایک علاقے میں ایران کا روز افزوں قوت و اقتدار اور دوسرے انتہاپسندی و دہشت گردی اور ان کے لئے دور ونزدیک سے پہنچائی جانے والی امریکی امداد ہے، کہ جس نے علاقے کے لئے بہت زیادہ بحران پیدا کردیئے ہیں لیکن ٹرمپ امریکی صدر کی حیثیت سے ان خطروں کو درک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور ان کی ٹیم امریکی صدر کو علاقے کی ہنگامی اور حساس صورتحال کے بارے میں مطمئن نہیں کرسکی ہے۔آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی، علاقے میں کشیدگی میں اضافہ ہونے اور ایک بڑی جنگ کے رونما ہونے کا باعث بنی ہے۔        

ٹیگس