Jan ۰۷, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۳ Asia/Tehran
  • اسرائیل کو سعودی عرب اور بحرین کا ہری جھنڈی دکھانا، رائے عامہ کی ریڈ لائن سے عبور

سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے تعلق سے ایک دائمی طریقہ کار کے حصول کے ساتھ ہی عرب ممالک، اسرائیل کو سرکاری طور پرتسلیم کرلیں گے۔ یہ بات عادل الجبیر نے فرانس کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو میں کہی-

دوسری جانب عرب ٹی وی کے مطابق الجبیر نے اردن کے دارالحکومت عمان میں عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد کہا ہے کہ  بیت المقدس کے بارے میں سعودی عرب کے مؤقف میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے اور وہ اس کو فلسطین کا دارالحکومت سمجھتا ہے۔ اس اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے بیت المقدس  کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے متنازعہ فیصلے پر غور کیا گیا ہے۔ اس موقع پر اردنی وزیر خارجہ ایمن الصفادی نے بھی کہا کہ عرب لیگ دنیا سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرانے کے لیے کام کرے گی۔

فلسطین انفارمیشن سینٹر نے اردن کی سرکاری خبررساں ایجنسی کے حوالے سے خبردی ہے کہ اردن نے عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل جو ہفتے کو بیت المقدس کے بارے میں منعقد ہوا تھا تجویز دی تھی کہ بیت المقدس کے بارے میں امریکی صدرٹرمپ کے فیصلے کا مقابلہ کرنے کے لئے عرب لیگ کاہنگامی سربراہی اجلاس بلایا جائے لیکن سعودی عرب اورمصرنے اس کی مخالفت کردی۔ سعودی عرب نے اپنی مخالفت میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ مارچ کے مہینے میں عرب لیگ کا معمول کا سربراہی اجلاس ریاض میں ہونے والا ہے اس لئے بیت المقدس کے بارے میں عرب لیگ کا ہنگامی سربراہی اجلاس بلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اس اجلاس میں عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیط کے علاوہ اردن ، فلسطین ، سعودی عرب ، مصر ، متحدہ عرب امارات اور مراکش کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی ۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک بحرینی وفد نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا تھا کہ جسے سعودی عرب کی نیابت میں، صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا اقدام قرار دیا گیا۔اسرائیل کے ساتھ بحرین کے تعلقات کو بحال کرنے کا کام صرف حالیہ دنوں سے ہی متعلق نہیں ہے بلکہ اس کا آغاز 1994 میں ہی اسی وقت ہوگیا تھا کہ جب اس وقت کے اسرائیلی وزیر ماحولیات نے ایک اعلی سطحی وفد کے ہمراہ، ماحولیات سے متعلق ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے  منامہ کا دورہ کیا تھا۔

اسی طرح سن دوہزار کے آغاز کے موقع پربحرین کے ولیعہد نے صیہونی حکومت کے سابق صدر شیمون پرز کے ساتھ ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں ملاقات کی تھی۔ اور بعد میں اس ملاقات کا نتیجہ ، بحرین میں اسرائیل کے بائیکاٹ کا دفتر بند کرنے کے منامہ کے فیصلے پر منتج ہوا تھا- اسی طرح 2008 میں بحرین کے بادشاہ نے ذاتی طور پر نیویارک میں ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو کانفرنس کے موقع پر شیمون پرز اور اس وقت کی اسرائیلی وزیر خارجہ تزیپی لیونی کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ 

برطانوی اخبار ٹائمز نے حال ہی میں اپنی انٹرنیٹ ویب سائٹ پر امریکی اورعرب ذرائع کے حوالے سے یہ انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب اور بحرین کے  تعلقات کی بحالی سے متعلق علامتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سعودی عرب بھی علاقے میں سازباز دھڑے کے سرغنہ کی حیثیت سے ہمیشہ عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لئے مختلف ہتھکنڈے اپناتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کے توسط سے 2002 میں پیش کئےجانے والے عرب منصوبے کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہےکہ جو غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کے فروغ کے لئے آل سعود کے روڈمیپ کے مترادف شمار ہوتا ہے۔

سعودی عرب نے صیہونی حکومت کی تشکیل کے وقت سے اس حکومت کے ساتھ باضابطہ روابط قائم نہیں کئے تھے لیکن ہمیشہ اس غاصب حکومت کے ساتھ خفیہ تعلقات قائم رکھے ہیں اور علاقے میں اس کی پالیسیوں کا ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب ایسی حالت میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کے درپے ہے کہ صیہونی حکومت عالم اسلام کی ایک نمبرکی مشترکہ دشمن ہے۔ سعودی عرب نے مغرب اور صیہونیوں کے مفادات کی تکمیل کے لئے، فلسطینیوں کے خلاف تخریبی اقدامات انجام دیئے ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ آل سعود کی خیانت کا واضح نمونہ ،عرب امن منصوبہ ہے۔ 

صیہونی حکومت کے ساتھ رابطہ قائم کرنا عالمی رائے عامہ کے نزدیک انتہائی قابل مذمت اقدام اوران کی ریڈ لائن ہے۔ لیکن سعودی عرب اور بحرین نے اس ریڈ لائن کو عبور کرکے اور اسرائیل کو ہری جھنڈی دکھاکر صرف اور صرف علاقے میں مزید رسوائی حاصل کی ہے۔      

ٹیگس