Jan ۰۷, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۵ Asia/Tehran
  •  ایران کے سلسلے میں امریکہ کو پے درپے شکست

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے کہا ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے اور اس سلسلے میں امریکی قوانین میں ممکنہ تبدیلیاں لانے کے بارے میں امریکی ایوان نمائندگان کے ساتھ تبادلۂ خیال کر رہے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ٹیلرسن کیا تبدیلیاں انجام دینا چاہتے ہیں اور یا خود ان کے بقول ایٹمی معاہدے کے بارے میں جن اصلاحات کی بات کر رہے ہیں، وہ ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں کے لئے کس پیغام کی حامل ہیں۔ ٹرمپ کو آئندہ دنوں میں ایٹمی معاہدے کے تعلق سے دشوار فیصلہ کرنا ہے اور انہیں اس معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے یا باقی رہنے کا فیصلہ کرنا ہے۔ٹیلرسن نے ہفتے کے روز ایسوشی ایٹیڈ پریس کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ یا تو اس معاہدے میں اصلاح کریں گے یا اس سے نکل جائیں گے ۔ ہم البتہ اس میں اپنے مدنظر اصلاح کے اپنے وعدے پر عمل کرنے کی کوشش میں ہیں۔

وہ آپشن کہ جس کے بارے میں امریکی ایوان نمائندگان نے وائٹ ہاؤس کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بحث کی ہے، وہ دراصل اس آپشن کو ختم کرنے کے بارے میں ہے کہ ٹرمپ ہر تین مہینے میں ایک بار ، ایٹمی معاہدے پر ایران کے پابند ہونے کے بارے میں کانگریس کو رپورٹ پیش کریں۔ امریکی حکومت کو اس ملک کے داخلی قوانین کے مطابق ہر نوے دن کے بعد ایک مرتبہ ایٹمی معاہدے پر ایران کے پابند ہونے کی تصدیق کرنا ہے۔ امریکی صدر نے اکتوبر 2017 میں اپنی رپورٹ میں ایران کی جانب سے جامع ایٹمی معاہدے کا پابند ہونے کی تصدیق نہیں کی تھی اور کانگریس کو دومہینے کا موقع دیا تھا تاکہ وہ جامع ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اپنے حتمی فیصلے کا اعلان کرے۔ لیکن کانگریس اس مدت میں جواب دہ نہیں ہوسکی۔ 

اس وقت امریکی کانگریس کے درمیان جو ماحول ہے وہ ٹرمپ کے حق میں نہیں ہے۔ ٹرمپ نے جمعے کے روز سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایران کے خلاف بحران پیدا کرنے کے اپنے سناریو کے ذریعے یہ تصور کرلیا تھا کہ وہ ایران کو محکوم کرنے کے لئے سلامتی کونسل کی رضا مندی حاصل کرلیں گے اور اس اجلاس کا نتیجہ ان کے حق میں نکلے گا لیکن نہ صرف روس اور چین نے ایران کی مذمت میں ووٹ نہیں دیا بلکہ امریکہ کے قریبی اتحادیوں یعنی برطانیہ اور فرانس نے بھی امریکہ کے اس سیاسی کھیل سے دوری اختیار کی۔ سلامتی کونسل کے دیگر اراکین نے بھی امریکہ کو ٹھینگا دکھا دیا۔ 

عالمی مسائل کے ماہر اور یونیورسٹی پروفیسر سید علی بیگدلی نامہ نیوز کے ساتھ انٹرویو میں کہتے ہیں: ٹرمپ کا اہم ترین اور بنیادی ترین مقصد یہ تھا کہ ایران کے توسط سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بل کی، سلامتی کونسل میں منظوری دلوائیں اور اسی مسئلے کو بہانہ بناکر ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کے لئے زمین ہموار کریں۔  اس بل کی عدم منظوری امریکہ کے لئے ایک کاری ضرب تھی۔ یہاں تک کہ امریکی وزیر خارجہ کو اپنے انٹرویو میں کہنا پڑا کہ ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ یورپی یونین نے ایران میں اصلاح کے مطالبے کے لئے بلند ہونےوالی آوازوں کی حمایت میں ٹھوس موقف نہیں اپنایا۔ 

اب ٹرمپ کو تیرہ جنوری تک ایٹمی معاہدے کے حوالے سے اپنا فیصلہ سنانا ہے اور ان کے لئے یہ فیصلہ کرنا کوئی آسان نہیں ہوگا۔ اگر ٹرمپ یہ چاہیں کہ یکطرفہ طور پر کوئی قدم اٹھائیں تو یورپی یونین کے ساتھ بھی ان کے تعلقات متاثر ہوں گے اور امریکہ اور چین و روس کے درمیان اختلافات بڑھ جائیں گے۔ روسی فیڈریشن کونسل کے ڈپٹی چیئرمین ولادیمیر جباروف اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس کے مغربی اتحادیوں کو چاہئے کہ وہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے متن میں تبدیلی لانے یا اس کی عدم پابندی کے بارے میں امریکہ کو خبردار کردیں۔ تاہم ٹرمپ نے گذشتہ ایک سال کے دوران یہ ثابت کر دکھایا ہے ہے کہ انہوں نے انتباہات کو غالبا دیر سے دریافت کیا ہے ۔ لیکن ایٹمی معاہدے کے بارے میں انتباہات کو دیر سے دریافت کرنے کا نتیجہ ٹرمپ حکومت کو بہت مہنگا ثابت ہوگا۔        

ٹیگس