Jan ۲۷, ۲۰۱۸ ۱۵:۰۸ Asia/Tehran
  • واشنگٹن کے علیحدگی پسندانہ منصوبے پر شام کا ردعمل

ویانا مذاکرات میں شامی حکومت کے نمائندہ وفد کے سربراہ نے کہا ہے کہ ہم واشنگٹن گروپ کے نام سے موسوم گروپ کی غیر قانونی دستاویز کو ہرگز قبول نہیں کریں گے -

ویانا مذاکرات میں شامی حکومت کے نمائندہ وفد کے سربراہ بشارالجعفری نے تاکید کے ساتھ کہا کہ دمشق، واشنگٹن گروپ کہ جس میں امریکہ، برطانیہ ، فرانس، سعودی عرب اور اردن شامل ہیں، کی غیرقانونی دستاویز پر دستخط نہیں کرے گا۔ بشارجعفری نے بحران شام کے حل کے لئے ویانا مذاکرات کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ واشنگٹن گروپ ، بحران شام کے حل کے لئے موثر سیاسی راہ حل کے مستقبل کو تباہ کرنا چاہتا ہے- یہ گہری سازشں ، سوچی میں شام کے قومی مذاکرات کے انعقاد کے موقع پر رچی گئی ہے جبکہ سوچی مذاکرات کا مقصد، غیرملکی مداخلتوں کے بغیر شامی گروہوں کے درمیان مذاکرات کرنا ہے۔

المیادین ٹی وی نے جمعے کو اعلان کیا کہ اسے ایسی دستاویز ملی ہے جسے واشنگٹن گروپ نے تیار کی ہے - اس دستاویز میں شام کی تقسیم کی سازش کی گئی ہے اور اس پر اقوام متحدہ کی براہ راست سرپرستی میں عمل درآمد کیا جائےگا - اس دستاویز میں عدم مرکزیت کے عنوان سے شام کی تقسیم اور وسیع اختیارات کی حامل علاقائی حکومتوں کی تشکیل کی جانب اشارہ کیا گیا ہے- واشنگٹن گروپ میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، سعودی عرب اور اردن شامل ہیں- شام کے حالات سے  دمشق کے خلاف بین الاقوامی سازشوں میں شدت آنے کا پتہ چلتا ہے - بعض مغربی طاقتیں اور حکام کہ جو اس ملک کو دہشتگردانہ اقدامات کے ذریعے خطرات سے دوچار کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں اس بار سیاسی اقدامات کے ذریعے اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان میں آگئے ہیں- سرپرستی کے نظام کے ذریعے سامراجی پالیسیوں کو دوبارہ شروع کرنے اور شام کو اس طرح کے سیسٹم میں شامل کرنے  سے وہ گہرے خطرات نمایاں ہوجاتے ہیں کہ جو واشنگٹن گروپ کے ذریعے عالمی برادری اور اس علاقے کے ممالک کو درپیش ہیں- اس موضوع نے سیاسی اور صحافتی سطح پر کچھ تشویش بھی پیدا کی ہے۔

روس کے سابق سفارتکار اور تجزیہ نگار ویچسلاو ماتازوف کا کہنا ہے کہ واشنگٹن گروپ کے قالب میں بعض مغربی حکومتوں کے اقدامات  اور شامی سرحدوں کے لئے فوج کی تشکیل کا نیا امریکی منصوبہ، تقسیم شام کے لئے پہلا قدم ہے - انھوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ امریکی موقف کے پیچھے اسرائیلی موقف پنہا ہے- بہرحال ہم جانتے ہیں کہ نئے اور عظیم  مشرق وسطی کا موضوع صرف ٹرمپ کی حکومت تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے لبنان کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے دوران امریکہ کی سابق وزیرخارجہ کانڈولیزرائس نے بھی اسے اٹھایا تھا- صیہونی - امریکی سازشوں کا ایک اہم حصہ مشرق وسطی کے ممالک کی مزید تقسیم پر مبنی ہے- نئے مشرق وسطی کے نام سے موسوم منصوبے کے نقشے کی بنیاد پر عراق اور شام ان ملکوں میں ہیں جنھیں اس سازش کا نشانہ بنایا گیا ہے- مشرق وسطی کا علاقہ اپنی خاص اسٹریٹیجک پوزیشن اور مالامال ذخائر کا حامل ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہی تسلط پسندانہ طاقتوں کی مفاد پرستانہ پالیسیوں اور مختلف سازشوں کا نشانہ رہا ہے- اور اسی وجہ سے بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ علاقے کے موجودہ حالات سے اس بات کے عکاس ہیں کہ سایکس - پیکو معاہدے کی بنیاد پر علاقے کی تقسیم کے حالات بن رہے ہیں یعنی علاقے کو ایک بار پھر نسل و مذہب کی بنیاد پر مختلف جغرافیائی حدود میں تقسیم کرنے کی سازش تیار ہوچکی ہے-

اس وقت مغربی حکومتیں بعض عرب حکام کی مدد،  تکفیری و دہشتگرد گروہوں کی حمایت ، صیہونی حکومت کی اشتعال انگیزی و جنگ پسندی اور نسلی اختلافات کے ذریعے مشرق وسطی کے نقشے کو دوسری شکل میں بدلنا چاہتی ہیں- اس تبدیلی کا مقصد جعلی و فرضی اسرائیلی حکومت کو مضبوط بنانا اور علاقے کو نہ ختم ہونے والی قومی و مذہبی جنگوں میں پھنسانا ہے۔

ٹیگس