Feb ۰۱, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۱ Asia/Tehran
  • مشرق وسطی کے تنازعے کے راہ حل پر یورپی یونین کی تاکید

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ مشرق وسطی کے تنازعے کے لئے دوملک کی تشکیل کی راہ حل کا کوئی معتبر سیاسی اور پائیدار جاگزیں نہیں ہے۔

ان کے بقول یورپی یونین کے تعاون کا مقصد، بیت المقدس کی مرکزیت کے ساتھ دوملک کی تشکیل کی راہ حل پرتاکید ہے جو اوسلو معاہدے اور بین الاقوامی قوانین منجملہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر استوار ہے۔   واضح رہے کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی نے گذشتہ سال دسمبر میں بھی ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا  کہ ہمارے خیال میں مشرق وسطی کے تنازعہ کا حقیقی حل دوریاستوں کی تشکیل ہی ہے اوربیت المقدس کو اسرائیل اور فلسطین کی دونوں ریاستوں کا دارالحکومت ہو نا چاہئے۔ مسئلہ فلسطین کی راہ حل کے بارے میں موگرینی کے موقف کا اعلان، یورپی یونین کا سرکاری موقف ہے۔ یہ ایسی حالت میں  ہےکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حال ہی میں قدس کو اسرائیل کا دارالحکومت اعلان کئے جانے کے پیش نظر، واشنگٹن نے عملی طور پر فلسطین میں دوملکوں کی تشکیل کی راہ حل کو ختم کردیا ہے۔ ٹرمپ کے اس موقف کی یورپی یونین نے مخالفت کی ہے۔ ٹرمپ نے بیت المقدس کو سرکاری طور پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کئے جانے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی عملی طور پر صیہونی حکومت کے منحوس اور ناپاک وجود کے باقی رہنے اور حتی 1967 کی مقبوضہ سرزمینوں میں یہودی کالونیوں میں توسیع پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے اور شہر قدس سے متعلق فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کے ساتھ ہی، عملی طورپر دو ملک کی تشکیل کی راہ حل کو نظر انداز کردیا ہے۔ 

باوجودیکہ یورپی یونین کا سرکاری موقف فلسطین میں دو ملک کی تشکیل ہے لیکن یورپی یونین نے اس سلسلے میں موثر قدم نہیں اٹھائے ہیں۔ جرمنی کی ہیمبرگ یونیورسٹی میں سیکورٹی پالیسی اینڈ پیس ریسرچ فاؤنڈیشن کی مارگریٹ یوہانسن  Margaret Johansen کا خیال ہے کہ یورپی یونین نے ایک فلسطینی حکومت کی تشکیل کے لئے کافی اقدامات انجام نہیں دیئے ہیں۔ ساتھ ہی یہ کہ یورپی یونین نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کی مخالفت میں صرف بیان جاری کرنے اور ان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ 

امدادی ادارے میڈیکو انٹرنیشنل میں مشرق قریب کے ڈائرکٹر تیسفیئر کوھن  Tessfair Cohen کے بقول یورپی یونین کا نہ ہی یہ مقصد ہے اور نہ ہی وہ ایسی پوزیشن میں ہے کہ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے میں مدد کرے۔ فلسطین کے بارے میں یورپیوں کے اس موقف کے باجود، اہم مسئلہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر فلسطین کی سرزمین میں دو ملک کی تشکیل کی راہ حل، حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ کیوں کہ دوملک کی تشکیل کا مسئلہ بنیادی طور پر، پوری فلسطینی سرزمین میں ایک خودمختارملک کی تشکیل کی نفی ہے اور جس کے سبب ،صیہونیوں کے غاصبانہ قبضے کو ،جو 1948 میں مغرب کی حمایت سے انجام پایا، قانونی اور سرکاری حیثیت مل جائے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کے حل کے دائرے میں فلسطین کے مستقبل کے بارے میں، سرزمین فلسطین کے تمام اصلی باشندوں کی شرکت سے ریفرنڈم کے انعقاد پر تاکید فرماتے ہیں تاکہ فلسطینی آ‍زادانہ طور پر اپنے مستقبل کا تعین کرسکیں۔ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ تمام فلسطینیوں کوچاہے وہ اس وقت اسی سرزمین پر زندگی گزار رہے ہوں یا وہ ہوں جو دیگر ملکوں کی جانب ظلم وستم کی بناء پر فرار کرگئے ہیں اور انہوں نے اپنے فلسطینی تشخص کو برقرار رکھا ہے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی ،سب کو چاہئے کہ وہ سخت نگرانی میں اور اطمئنان بخش ریفرنڈم میں شرکت کریں اور اس ملک کے سیاسی نظام کے ڈھانچے کا انتخاب کریں اور تمام فلسینیوں کو جنہوں نے برسوں سے دربدری اور بے وطنی کی مشقت اور تکلیف برداشت کی ہے وہ اپنی سرزمین پر واپس لوٹ جائیں اور اس ریفرنڈم میں اور پھر آئین کی تدوین اور انتخابات میں شرکت کریں۔   

ٹیگس