Apr ۱۱, ۲۰۱۸ ۱۸:۲۲ Asia/Tehran
  • سعودی عرب میں آل سعود کی فرقہ وارانہ پالیسیوں میں شدت

مشرقی سعودی عرب کے شہر قطیف کے الکویکب علاقے میں سعودی فوجیوں نے حملہ کرکے کم از کم تین افراد کو گرفتار کرلیا-

رپورٹ کے مطابق آل سعود حکومت کے فوجیوں نے مشرقی علاقے میں آباد شیعہ مسلمانوں کے خلاف جارحیت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے الکویکب کے علاقے میں ایک امام بارگاہ پر حملہ کر دیا اور تین بے گناہ افراد کو گرفتار کر لیا۔ شیعہ مسلمانوں کی اکثریتی آبادی ہونے کی بنا پر شہر قطیف پر سعودی فوجیوں کے مظالم کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ اسی علاقے میں تیل کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں جن کی بنا پر سعودی حکومت کی نوّے فیصد آمدنی بھی ہوتی ہے۔ مشرقی علاقوں کے لوگوں پر سعودی حکومت کی جارحیت کے نتیجے میں اب تک درجنوں افراد شہید و زخمی ہو چکے ہیں جبکہ سیکڑوں دیگر کو وہ گرفتار کر چکی ہے۔

سعودی عرب کے مشرقی علاقے منجملہ شہر قطیف کو آبادی اور قدرتی ذخائر کی وجہ سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ اہل تشیع اس ملک کے دوسرے علاقوں اور شہروں منجملہ مدینہ منورہ  اور نجران میں بھی رہتے ہیں لیکن اس ملک کے مشرقی علاقوں کو عموما شیعہ علاقوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آل سعود نے ایسی سیکورٹی پالیسی اختیار کر رکھی ہے کہ سعودی عرب میں اہل تشیع کی آبادی کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ البتہ اس ملک کی کم از کم دس سے پندرہ فیصد تک آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے۔ مشرقی علاقے اقتصادی اعتبار سے بھی آل سعود حکومت کے لئے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ تیل کے اکثر ذخائر مشرقی علاقوں میں واقع ہیں اور سعودی عرب کی حکومت کی نوے فیصد آمدنی تیل سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ بنابریں آبادی کا تناسب اور تیل کے بے شمار ذخائر کی وجہ سے سعودی حکومت کی توجہ مشرقی علاقوں پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہے۔ آل سعود حکومت ان علاقوں کے باشندوں کو اپنے تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے کیونکہ یہ فرقہ پرست حکومت اہل تشیع کو دوسرے درجے کا شہری اور اپنے لئے خطرہ جانتی ہے اسی لئے سسٹیمیٹک طریقے سے ان کو محرومیت اور امتیازی سلوک کا نشانہ بناتی ہے اور یہی امر مشرقی علاقوں میں حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہونے کا باعث بنا ہے۔

مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اگرچہ سعودی عرب کے تمام علاقوں میں ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن اس ملک کے اہل تشیع کے حقوق کی خلاف ورزی زیادہ وسیع پیمانے پر ہوتی ہے۔ اسی نسل پرستانہ رویے کی بنا پر سعودی عرب کے شیعہ مسلمان اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں حالانکہ اہل تشیع سعودی عرب کے مقامی باشندے ہیں اور شیعہ مذہب ایک مسلّمہ اور دین اسلام کا ترقی یافتہ اور معروف و مشہور مذہب شمار ہوتا ہے۔ وہابی مفتی، شیعہ ہونے کے جرم میں ان کے ارتداد کا فتوی دیتے ہیں اور ان کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ سعودی عرب کے حکومتی نظام میں اہل تشیع کو کوئی کردار حاصل نہیں ہے۔ آل سعود حکام، سعودی عرب کے شیعوں کو اپنے اقتدار کے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں، مختلف حربوں کے ذریعے ان کو اس ملک کے سماجی اور سیاسی دھارے سے نکال باہر کرنے کے درپے ہیں اور ان کی سرگرمیوں پر بھی بری طرح نظر رکھے ہوئے ہیں۔

آل سعود حکومت، اپنے ملک کے عام شہریوں کے خلاف پرتشدد اور جارحانہ اقدامات عمل میں لانے میں کسی بھی حد کی قائل نہیں ہے اور اس حکومت نے سعودی عرب کو عالمی سطح پر عام شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے ایک بڑے مرکز میں تبدیل کر دیا ہے۔۔ آیت اللہ باقر نمر سعودی عرب کے ایسے جید عالم دین تھے جن کو جولائی دو ہزار بارہ میں قومی سلامتی کے خلاف اقدام انجام دینے کے بے بنیاد الزام کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور پھر آل سعود کی عدالت نے پندرہ اکتوبر جولائی سنہ دو ہزار پندرہ میں ان کو سزائے موت سنائی اور دو جنوری سنہ دو ہزار سولہ کو ان کا سرقلم کر دیا گیا۔ ان کو جس انداز میں سزائے موت دی گئی اسے بہیمانہ ظلم اور ریاستی دہشت گردی قرار دیا گیا حالانکہ مشرقی علاقوں کے باشندوں پر آل سعود کے حملے اپنے شہریوں کے خلاف اس حکومت کی ریاستی دہشت گردی کا تسلسل شمار ہوتے ہیں۔

بہرحال آل سعود حکومت کے ہاتھوں سعودی عرب میں عام شہریوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور ملک کا نظم و نسق جمہوری طریقے سے چلائے جانے پر اس حکومت کی شدید مخالفت، اس بات کا باعث بنی ہے کہ سیاسی و سماجی طور پر سعودی عرب ایک قدامت پسند ملک سمجھا جاتا ہے کہ رائے عامہ کے نزدیک جس کا نظم و نسق قرون وسطی کے قاعدے و قانون کے مطابق چلایا جاتا ہے۔

ٹیگس